Top News

Audio


حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی پہلی شادی اپنی چچازاد، حضرت سارہؑ سے ہوئی، لیکن وہ ایک عرصے تک اولاد کی نعمت سے محروم رہے۔ ایک دن حضرت سارہؑ نے اُن سے فرمایا’’ آپؑ، ہاجرہؑ سے نکاح کر لیں، شاید اللہ تعالیٰ اُن کے بطن سے اولاد عطا فرما دے۔‘‘ دراصل، یہ سب کچھ مِن جانب اللہ ہی تھا۔ چناں چہ، آپؑ نے حضرت ہاجرہؑ کو اپنی زوجیت میں لے لیا اور پھر شادی کے ایک سال بعد ہی اُنھوں نے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو جنم دیا۔ اُس وقت حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی عُمرِ مبارکہ 86سال تھی۔ جب حضرت ہاجرہؑ اُمید سے تھیں، تو فرشتے نے آپؑ کو لڑکا ہونے کی نوید سُنائی اور’’ اسماعیل‘‘ نام رکھنے کو کہا۔ حضرت اسماعیلؑ اٹھارہ سو قبلِ مسیح میں پیدا ہوئے۔

ایک نئی آزمائش

حضرت ابراہیمؑ دعائوں، آرزوئوں اور تمنّائوں کے بعد پیرانہ سالی میں پہلے فرزند کی پیدائش پر خوشیوں کا بھرپور اظہار بھی نہ کر پائے تھے کہ اُنھیں ایک اور آزمائش سے گزرنا پڑا۔ وہ بہ حکمِ الہٰی نومولود لختِ جگر اور فرماں بردار بیوی کو مُلکِ شام سے ہزاروں میل دُور ایک ایسی وادی میں چھوڑ آئے کہ جہاں میلوں تک پانی تھا، نہ چرند پرند۔اور آدم تھا، نہ آدم زاد۔

بے آب و گیاہ ویرانے میں

وادیٔ فاران کے سنگلاخ کالے پہاڑوں کے درمیان، تپتے صحرا کے ایک بوڑھے درخت کے نیچے، اللہ کی ایک نیک اور برگزیدہ بندی اپنے نومولود معصوم بیٹے کے ساتھ چند روز سے قیام پزیر ہیں۔ جو زادِ راہ ساتھ تھا، ختم ہو چُکا۔ ماں، بیٹا بھوک، پیاس سے بے حال ہیں۔ ماں کو اپنی تو فکر نہیں، لیکن بھوکے، پیاسے بچّے کی بے چینی پر ممتا کی تڑپ فطری اَمر ہے، لیکن اس لق و دق صحرا میں پانی کہاں…؟جوں جوں لختِ جگر کی شدّتِ پیاس میں اضافہ ہو رہا تھا، ممتا کی ماری ماں کی بے قراری بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ اسی حالتِ اضطراب میں قریب واقع پہاڑی،’’صفا‘‘پر چڑھیں کہ شاید کسی انسان یا پانی کا کوئی نشان مل جائے، لیکن بے سود۔ تڑپتے دِل کے ساتھ بھاگتے ہوئے ذرا دُور، دوسری پہاڑی’’مروہ‘‘پر چڑھیں، لیکن بے فائدہ۔اس طرح، دونوں پہاڑیوں کے درمیان پانی کی تلاش میں سات چکر مکمل کر لیے۔

آبِ زَم زَم کا جاری ہونا

ادھر اللہ جل شانہ نے حضرت جبرائیل امینؑ کے ذریعے شیر خوار اسماعیلؑ کے قدموں تلے دنیا کے سب سے متبرّک اور پاکیزہ پانی کا چشمہ جاری کر کے رہتی دنیا تک کے لیے یہ پیغام دے دیا کہ اللہ پر توکّل کرنے والے صابر و شاکر بندوں کو ایسے ہی بیش قیمت انعامات سے نوازا جاتا ہے۔حضرت عبداللہ بن عبّاسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا کہ’’ اللہ پاک، حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی والدہ پر رحمت فرمائے، اگر وہ پانی سے چُلّو نہ بھرتیں اور اُسے رُکنے کا نہ کہتیں، تو وہ ایک بہتا ہوا چشمہ ہوتا۔‘‘ آبِ زَم زَم غذا بھی ہے اور شفا بھی۔ دوا ہے اور دُعا بھی۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ماں، بیٹے کے لیے بہترین غذا کا بندوبست کیا، بلکہ تاقیامت مسلمانوں کے فیض یاب ہونے کا وسیلہ بنا دیا۔

مقدّس ترین شہر

حضرت ہاجرہؑ اپنے صاحب زادے کے ساتھ وہیں رہ رہی تھیں کہ ایک روز عرب کے قبیلے، بنو جرہم کے کچھ لوگ پانی کی تلاش میں وہاں پہنچے اور حضرت ہاجرہؑ کی اجازت سے وہاں رہائش اختیار کر لی۔ پھر دوسرے قبائل بھی وہاں آ آ کر آباد ہوئے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے وہ سُنسان صحرا دنیا کے سب سے مقدّس و متبرّک اور عظیم شہر، مکّہ مکرّمہ میں تبدیل ہو گیا۔ حضرت ہاجرہؑ نے بیٹے کی پرورش اور تعلیم و تربیت پر خصوصی توجّہ دی۔

سِکھائے کس نے آدابِ فرزندی

تیرہ سال کا طویل عرصہ جیسے پَلک جھپکتے گزر گیا۔حضرت اسماعیل علیہ السّلام مکّے کی مقدّس فضائوں میں آبِ زَم زَم پی کر اور صبر و شُکر کی پیکر، عظیم ماں کی آغوشِ تربیت میں پروان چڑھتے ہوئے بہترین صلاحیتوں کے مالک، خُوب صورت نوجوان کا رُوپ دھار چُکے تھے کہ ایک دن حضرت ابراہیم علیہ السّلام تشریف لائے اور فرمایا’’اے بیٹا!مَیں خواب میں دیکھتا ہوں کہ (گویا) تمھیں ذبح کر رہا ہوں، تو تم سوچو کہ تمہارا کیا خیال ہے؟(فرماں بردار بیٹے نے سرِ تسلیمِ خم کرتے ہوئے فرمایا)،ابّا جان! آپؑ کو جو حکم ہوا ہے، وہی کیجیے۔اللہ نے چاہا، تو آپؑ مجھے صابرین میں پائیں گے۔‘‘(سورۃ الصٰفٰت102:37) حضرت اسماعیل علیہ السّلام کا یہ سعادت مندانہ جواب دنیا بھر کے بیٹوں کے لیے آدابِ فرزندی کی ایک شان دار مثال ہے۔ اطاعت و فرماں برداری اور تسلیم و رضا کی اس کیفیت کو علّامہ اقبالؒ نے یوں بیان کیا؎ یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی…سِکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی۔

مِنیٰ کی جانب سفر اور شیطان کی چالیں

حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے بیٹے کا جواب سُنا، تو اُنہیں سینے سے لگایا اور حضرت ہاجرہؑ کے پاس لے آئے۔ فرمایا’’ اے ہاجرہؑ!آج ہمارے نورِ نظر کو آپ اپنے ہاتھوں سے تیار کر دیجیے۔‘‘ممتا کے مقدّس، شیریں اور اَن مول جذبوں میں ڈوبی ماں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو نئی پوشاک پہنائی۔ آنکھوں میں سُرمہ، سَر میں تیل لگایا اور خُوش بُو میں رچا بسا کر باپ کے ساتھ باہر جانے کے لیے تیار کر دیا۔اسی اثنا میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام بھی ایک تیز دھار چُھری کا بندوبست کر چُکے تھے۔ پھر بیٹے کو ساتھ لے کر مکّے سے باہر مِنیٰ کی جانب چل دیئے۔شیطان نے باپ، بیٹے کے درمیان ہونے والی گفتگو سُن لی تھی۔ جب اُس نے صبر و استقامت اور اطاعتِ خداوندی کا یہ رُوح پرور منظر دیکھا، تو مضطرب ہو گیا اور اُس نے باپ، بیٹے کو اس قربانی سے باز رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ چناں چہ’’ جمرہ عقبیٰ‘‘ کے مقام پر راستہ روک کر کھڑا ہو گیا۔حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے ساتھ موجود فرشتے نے کہا’’ یہ شیطان ہے، اسے کنکریاں ماریں۔‘‘حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے’’اللہ اکبر‘‘کہہ کر اُسے سات کنکریاں ماریں، جس سے وہ زمین میں دھنس گیا۔ ابھی آپؑ کچھ ہی آگے بڑھے تھے کہ زمین نے اُسے چھوڑ دیا اور وہ’’ جمرہ وسطیٰ‘‘ کے مقام پر پھر وَرغلانے کے لیے آ موجود ہوا۔حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے دوبارہ کنکریاں ماریں، وہ پھر زمین میں دھنسا، لیکن آپؑ کچھ ہی آگے بڑھے تھے کہ وہ’’ جمرہ اولیٰ‘‘ کے مقام پر پھر موجود تھا۔حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے تیسری بار’’اللہ اکبر‘‘کہہ کر کنکریاں ماریں، تو وہ زمین میں دھنس گیا۔اللہ تبارک وتعالیٰ کو ابراہیم خلیل اللہؑ کا شیطان کو کنکریاں مارنے کا عمل اس قدر پسند آیا کہ اسے رہتی دنیا تک کے لیے حج کے واجبات میں شامل فرما دیا۔“
ﺁﺝ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺑﭩﮭﺎﺋﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﺠﯿﺐ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﯾﺎ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻭﺯﯾﺮ ﺍﻋﻈﻢ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﮯ ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮ ﭘﺎﻧﭻ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ، ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﻋﺠﯿﺐ ﻭ ﻏﺮﯾﺐ ﺧﯿﺎﻝ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺏ ﺑﮭﻼ ﯾﮧ ﺗﻌﯿﻦ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﮧ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺧﻄﺎ ﮐﺎﺭ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﻧﭻ۔
ﻭﺯﯾﺮ ﺍﻋﻈﻢ ﻧﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﮯ ﺩﻭ ﯾﻮﻡ ﮐﯽ ﻣﮩﻠﺖ ﻃﻠﺐ ﮐﯽ ﺟﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺨﻮﺷﯽ ﺩﮮ ﺩﯼ۔ ﻭﺯﯾﺮﺍﻋﻈﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﮨﺎﺋﺶ ﮔﺎﮦ ﮐﻮ ﻟﻮﭦ ﺁﯾﺎ۔ ﭘﮩﻼ ﺩﻥ ﺗﻮ ﺳﻮﭺ ﺑﭽﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺭ ﮔﯿﺎ، ﻭﮦ ﺟﺘﻨﺎ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ۔ ﺍﺏ ﺑﮭﻼ ﻭﮦ ﮐﺴﮯ ﺑﮍﺍ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﺎﺭ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮐﺮﻭﺍﺩﯾﺘﺎ۔ ﺑﺎﻵﺧﺮ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﮑﺘﮧ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ، ﺑﺲ ﺍﺳﯽ ﻧﮑﺘﮯ ﮐﻮ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺁﺋﻨﺪﮦ ﮐﺎ ﻻﺋﺤﮧ ﻋﻤﻞ ﻃﮯ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯾﺎ۔
ﺩﻭ ﺩﻥ ﺟﮭﭧ ﭘﭧ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ، ﭘﺎﻧﭻ ﺑﮍﮮ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭﻭﮞ ﻭﺍﻟﯽ ﺑﺎﺕ ﺍﺏ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﯽ ﻋﻮﺍﻡ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭻ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ، ﮨﺮ ﺷﺨﺺ ﭘﺎﺭﺳﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯾﺪﺍﺭ ﺗﮭﺎ۔ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﻧﯿﮏ ﻇﺎﮨﺮ ﮐﺮﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ، ﺁﺧﺮ ﻭﺯﯾﺮ ﺍﻋﻈﻢ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺗﮭﺎ، ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﮐﻮﺗﻮﺍﻝ ﻧﮯ ﺷﮩﺮ ﺑﮭﺮ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﮍﮮ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭ ﭘﮑﮍ ﻟﯿﮯ، ﺍﻥ ﭘﺎﻧﭻ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﻢ ﻏﻔﯿﺮ ﺍﻣﮉ ﺁﯾﺎ۔ ﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺗﺎﺏ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺁﺧﺮ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﻥ ﺑﮍﺍ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺣﺸﺮ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﮔﺎ، ﺷﺎﮨﯽ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻞ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮨﺠﻮﻡ ﺗﮭﺎ، ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺗﺨﺖ ﭘﺮ ﺑﺮﺍﺟﻤﺎﻥ ﺗﮭﺎ، ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﺍﺷﺎﺭﮮ ﭘﺮ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﮍﮮ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ۔
ﻋﺎﻟﻢ ﭘﻨﺎﮦ، ﯾﮧ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﺍﺷﯿﺎﺀﻣﯿﮟ ﻣﻼﻭﭦ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ، ﻧﺎﺟﺎﺋﺰ ﻣﻨﺎﻓﻊ ﮐﻤﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﯾﮧ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ، ﺍﺳﮯ ﻣﻮﺕ ﯾﺎﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﻟﺤﻈﮧ ﺩﻭﻟﺖ ﮐﻤﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻧﺖ ﻧﺌﮯ ﻣﻨﺼﻮﺑﮯ ﺑﻨﺎﺗﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺩﻭﻟﺖ ﮐﺎ ﺷﻤﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭﺍ ﮨﮯ، ﻭﺯﯾﺮ ﺍﻋﻈﻢ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺗﻌﺎﺭﻑ ﮐﺮﻭﺍﯾﺎ۔ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﻏﺼﮯ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﮮ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺳﻮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﮌﮬﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻧﻮﭦ ﺩﯾﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ، ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺩﻭﻟﺖ ﺩﮮ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﮨﺮ ﻃﺮﻑ ﻧﻮﭦ ﮨﯽ ﻧﻮﭦ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﮟ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮨﺮ ﺭﻭﺯ ﺍﺳﮯ ﻣﻼﻭﭦ ﻭﺍﻻ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﺣﮑﻢ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﻞ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﺎﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔
ﻋﺎﻟﻢ ﭘﻨﺎﮦ، ﯾﮧ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺑﮍﺍ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﻏﯿﺒﺖ، ﭼﻐﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﺣﺴﺪ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ، ﺳﺎﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﺮﯼ ﮨﮯ ﺑﺲ ﯾﮧ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﮯ۔ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯽ، ﺗﺮﻗﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺷﺤﺎﻟﯽ ﺳﮯ ﺟﻠﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ، ﺯﺑﺎﻥ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﭼﻼﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻡ ﮐﻢ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ، ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻓﺴﺎﺩ ﭘﮭﯿﻼﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﻭﺯﯾﺮ ﺍﻋﻈﻢ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ۔ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﻏﺼﮯ ﺳﮯ ﺳﺮﺥ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ ﺟﺎﺅ ﺍﺳﮯ ﻗﯿﺪ ﺧﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺩﻭ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﮏ ﺑﮏ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﮯ، ﺗﺎﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﻓﻀﻮﻝ ﺑﻮﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﻣﻞ ﺳﮑﮯ۔ ﺟﺐ ﯾﮧ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮ ﺗﻮ ﮐﻮﮌﮮ ﻣﺎﺭ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﮭﻮﻟﯽ ﺟﺎﺋﮯ، ﺣﺘﯽٰ ﮐﮧ ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﭼﮭﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺕ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﻧﮧ ﻧﮑﻠﮯ۔ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﭘﺮ ﺍﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻗﯿﺪ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔
ﻋﺎﻟﯽ ﺟﺎﮦ، ﯾﮧ ﺗﯿﺴﺮﺍ ﺑﮍﺍ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﺭﺍﺷﯽ ﮨﮯ، ﺣﺎﻻﮞ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺍﭼﮭﯽ ﺑﮭﻠﯽ ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﮩﺪﮮ ﺳﮯ ﻧﺎﺟﺎﺋﺰ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﺎﺋﺰ ﮐﺎﻡ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﺴﮯ ﺑﭩﻮﺭﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺧﺪﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺧﻮﻑ ﺳﮯ ﻋﺎﺭﯼ ﮨﮯ۔ ﻭﺯﯾﺮ ﺍﻋﻈﻢ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﭘﺎﺭﮦ ﭼﮍﮪ ﮔﯿﺎ۔ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﻗﯿﺪ ﺧﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ، ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺩﻭﻟﺖ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﻭﯾﮧ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﻧﻮﭦ ﮔﻨﺘﺎ ﺭﮨﮯ، ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﻮﭦ ﮔﻨﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮏ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﭘﺮ ﺿﺮﺏ ﻟﮕﺎﺋﯽ ﺟﺎﺋﮯ، ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﺗﻨﺎ ﺗﮭﮑﺎﺩﻭ ﮐﮧ ﺁﺋﻨﺪﮦ ﺟﺎﺋﺰ ﺩﻭﻟﺖ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﯾﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﺎﺟﺎﺋﺰ ﭘﯿﺴﮧ ﻧﮧ ﭘﮑﮍﺳﮑﮯ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺣﮑﻢ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ۔
ﺍﺏ ﭼﻮﺗﮭﮯ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﯼ ﺁﮔﺌﯽ۔ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﻼﻣﺖ ﯾﮧ ﭼﻮﺗﮭﺎ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﺎ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻥ ﮨﮯ، ﻟﻮﮔﻮﮞ ﭘﺮ ﺭﺣﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ، ﺑﭽﻮﮞ ﭘﺮ ﺷﻔﻘﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ۔ ﺟﻮﺍﺏ ﮐﮭﯿﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﺟﺎﺋﺰ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺑﮭﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﺨﺖ ﺑﺮﮨﻢ ﮨﻮﺍ۔ ﺣﮑﻢ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﺳﮯ ﺟﯿﻞ ﭘﮩﻨﭽﺎﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺳﺰﺍ ﻣﻠﯽ ﮐﮧ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﺳﮯ ﻗﯿﺪ ﺧﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ، ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﺍﯾﮏ ﮨﺰﺍﺭ ﺑﭽﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﻠﯿﮟ ﮔﮯ، ﺟﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﯾﮧ ﺷﻔﻘﺖ ﺳﮯ ﭘﯿﺶ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﺭﻭﭘﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﺎﮐﮧ ﺟﻮﺍﺭﯼ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﻭﻟﺖ ﮐﺎ ﻏﻢ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺳﮑﮯ۔
ﭘﺎﻧﭽﻮﺍﮞﮕﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﮨﺮ ﻃﺮﻑ ﮨﻮﮐﺎ ﻋﺎﻟﻢ ﺗﮭﺎ، ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻋﺎﻟﻢ ﺗﮭﺎ۔ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻠﻤﯽ ﺟﺎﮦ ﻭ ﺟﻼﻝ ﮐﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﻋﺰﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ، ﻣﺠﺮﻣﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻓﮩﺮﺳﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻟﻮﮒ ﺩﻡ ﺑﺨﻮﺩ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ۔ ﻭﺯﯾﺮ ﺍﻋﻈﻢ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻋﺎﻟﯽ ﺟﺎﮦ، ﯾﮧ ﭘﺎﻧﭽﻮﺍﮞ ﺑﮍﺍ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﺳﺎﺋﻨﺴﯽ ﻋﻠﻮﻡ ﮐﺎ ﻣﺎﮨﺮ ﮨﮯ۔ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺋﻨﺴﯽ ﻃﺮﺯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺧﻮﺩ ﺻﺎﻑ ﺳﺘﮭﺮﺍ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ، ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﺷﻮﻕ ﺳﮯ ﭘﮍﮬﺘﺎ ﮨﮯ، ﺭﺍﺕ ﺩﻥ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﻏﺮﻕ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ، ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﭼﮭﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺩﺍﻧﯽ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﻣﺮﻋﻮﺏ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﺏ ﺗﮏ ﻭﺯﯾﺮ ﺍﻋﻈﻢ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ، ﺟﻮ ﺍﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﺗﯽ۔ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﺳﺎﺭﯼ ﺑﺎﺕ ﺳﻦ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ، ﻭﺯﯾﺮ ﺍﻋﻈﻢ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ۔ ﺣﻀﻮﺭ ! ﺗﻤﺎﻡ ﺗﺮ ﺍﭼﮭﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﯾﮧ ﺷﺨﺺ ﺧﻮﺩ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﻭﺯﻣﺮﮦ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺳﺎﺋﻨﺴﯽ ﺍﺻﻮﻝ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ۔ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﺭﺱ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﻗﺎﺋﮯ ﻧﺎﻣﺪﺍﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﻃﺮﺯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﺎﺋﻨﺴﯽ ﺗﮭﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ، ﮔﻮﯾﺎ ﺍﺱ ﻋﺎﻟﻢ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ ﺑﮯ ﻋﻤﻞ ﮨﮯ۔ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﺱ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺗﺨﺖ ﺳﮯ ﺍﭨﮫ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﺍ، ﺑﮯ ﺷﮏ ﯾﮧ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﻣﺠﺮﻡ ﮨﮯ۔ ﺍﮔﺮ ﻋﺎﻟﻢ ﺑﮯ ﻋﻤﻞ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻗﻮﻡ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﺮﻗﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺳﮑﺘﯽ، ﺟﻮﺍ، ﺷﺮﺍﺏ، ﭼﻮﺭﯼ، ﺑﺪﻣﻌﺎﺷﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﺟﺎﺋﺰ ﺩﻭﻟﺖ ﮐﯽ ﮨﻮﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﯽ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺣﻘﻮﻕ ﺍﻟﻌﺒﺎﺩ ﺳﮯ ﺑﮯ ﺍﻋﺘﻨﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﺗﺒﮭﯽ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﻗﻮﻝ ﻭ ﻓﻌﻞ ﮐﮯ ﺗﻀﺎﺩ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ، ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ ﻗﮩﺮ ﺁﻟﻮﺩ ﮨﻮﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﻭﺯﯾﺮ ﺍﻋﻈﻢ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ۔
ﻋﺎﻟﯽ ﺟﺎﮦ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﯿﺎ ﺣﮑﻢ ﮨﮯ۔
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﻈﺮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮈﺍﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ۔
ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﻭ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻋﺎﻟﻢ ﮐﺎ ﺳﺮ ﻗﻠﻢ ﮐﺮﺩﻭ ﺗﺎﮐﮧ ﺁﺋﻨﺪﮦ ﺍﺱ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﻋﻤﻞ ﻟﻮﮒ ﺑﺎﻗﯽ ﻧﮧ ﺭﮦ ﺳﮑﯿﮟ۔
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺳﺰﺍ ﮐﮯ ﺍﻋﻼﻥ ﭘﺮ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﭘﺮ ﺳﮑﺘﮧ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ ﻣﺤﻞ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﮨﺮ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﮐﯽ ﺗﺮﻗﯽ ﻭ ﺧﻮﺷﺤﺎﻟﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﮐﺎ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔ ﺳﺰﺍ ﻣﻠﺘﮯ ﮨﯽ ﻋﺎﻟﻢ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﺯﺭﺩ ﭘﮍﮔﯿﺎ۔ ﻭﮦ ﺍﻟﺘﺠﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ، ﻋﺎﻟﯽ ﺟﺎﮦ ﺭﺣﻢ، ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺳﺰﺍ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﻧﮧ ﻻﮔﻮ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ، ﻣﺠﮭﮯ ﻣﮩﻠﺖ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﭨﺲ ﺳﮯ ﻣﺲ ﻧﮧ ﮨﻮﺍ، ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﺟﺎﮦ ﻭ ﺟﻼﻝ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺑﻮﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﺟﺮﺍﺕ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ، ﯾﻘﯿﻨﯽ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺑﮯ ﻋﻤﻞ ﮐﺎ ﺳﺮ ﻗﻠﻢ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻗﺎﺿﯽ ﺑﻮﻝ ﭘﮍﺍ، ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﻼﻣﺖ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺩﺭﺳﺖ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺻﺎﺩﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﯾﮏ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ ﻋﺎﻟﻢ ﺑﮭﯽ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭ ﮐﻮ ﺗﻮﺑﮧ ﮐﯽ ﻣﮩﻠﺖ ﺿﺮﻭﺭ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ، ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺍﺳﺎﺗﺬﮦ ﺑﮯ ﻋﻤﻠﯽ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺭﺍﮦ ﺭﺍﺳﺖ ﭘﺮ ﺁﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺧﻮﺏ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ۔ ﺧﻄﺎﮐﺎﺭ ﮐﻮ ﺍﺻﻼﺡ ﮐﯽ ﮔﻨﺠﺎﺋﺶ ﮐﺎ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺿﺮﻭﺭ ﺩﯾﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ، ﻟﮩٰﺬﺍ ﺳﺰﺍ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﺛﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﻗﺎﺿﯽ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﻭﺯﻥ ﺗﮭﺎ، ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﺎﻝ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﺩﮮ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻠﻢ ﻭ ﻋﻤﻞ ﺳﮯ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﮩﺎﻟﺖ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﮐﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺳﮑﮯ۔
ﺳﺎﺋﻨﺲ ﻣﺤﺾ ﺍﯾﮏ ﻟﻔﻆ ﻧﮩﯿﮟ ﻃﺮﺯ ﺣﯿﺎﺕ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻓﮑﺮ ﮐﯽ ﻋﻤﻠﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺁﻗﺎﺋﮯ ﻧﺎﻣﺪﺍﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺫﺍﺕ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯﮎ ﻋﻤﻞ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﻗﺮﺁﻥ ﺣﮑﯿﻢ ﮨﮯ۔ 
ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺍﻟﺮﺷﯿﺪ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﻗﺤﻂ ﭘﮍ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﺱ ﻗﺤﻂ ﮐﮯ ﺍﺛﺮﺍﺕ ﺳﻤﺮﻗﻨﺪ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺑﻐﺪﺍﺩ ﺗﮏ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﻓﮧ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻣﺮﺍﮐﺶ ﺗﮏ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺍﻟﺮﺷﯿﺪ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻗﺤﻂ ﺳﮯ ﻧﻤﭩﻨﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺗﺪﺑﯿﺮﯾﮟ ﺁﺯﻣﺎ ﻟﯿﮟ ‘ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻏﻠﮯ ﮐﮯ ﮔﻮﺩﺍﻡ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﺋﯿﮯ ‘ ﭨﯿﮑﺲ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﺋﯿﮯ ‘ ﭘﻮﺭﯼ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻟﻨﮕﺮ ﺧﺎﻧﮯ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮ ﺩﺋﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻣﺮﺍﺀﺍﻭﺭ ﺗﺎﺟﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﻣﺘﺎﺛﺮﯾﻦ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻣﻮﺑﻼﺋﺰ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﮯ ﺣﺎﻻﺕ ﭨﮭﯿﮏ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﮯ۔
ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺕ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺍﻟﺮﺷﯿﺪ ﺷﺪﯾﺪ ﭨﯿﻨﺸﻦ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ ‘ ﺍﺳﮯ ﻧﯿﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﺁ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ‘ ﭨﯿﻨﺸﻦ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺯﯾﺮﺍﻋﻈﻢ ﯾﺤﯿﯽٰ ﺑﻦ ﺧﺎﻟﺪ ﮐﻮ ﻃﻠﺐ ﮐﯿﺎ ‘ ﯾﺤﯿﯽٰ ﺑﻦ ﺧﺎﻟﺪ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺍﻟﺮﺷﯿﺪ ﮐﺎﺍﺳﺘﺎﺩ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﭽﭙﻦ ﺳﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺍﻟﺮﺷﯿﺪ ﻧﮯ ﯾﺤﯿﯽٰ ﺧﺎﻟﺪ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ” ﺍﺳﺘﺎﺩﻣﺤﺘﺮﻡ ﺁﭖ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ‘ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﺳﻨﺎﺋﯿﮟ ﺟﺴﮯ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﻗﺮﺍﺭ ﺁ ﺟﺎﺋﮯ “ ﯾﺤﯿﯽٰ ﺑﻦ ﺧﺎﻟﺪ ﻣﺴﮑﺮﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ” ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﻼﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﺒﯽ ﮐﯽ ﺣﯿﺎﺕ ﻃﯿﺒﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﭘﮍﮬﯽ ﺗﮭﯽ ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﻣﻘﺪﺭ ‘ ﻗﺴﻤﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺭﺿﺎ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﻧﺪﺍﺭ ﺗﺸﺮﯾﺢ ﮨﮯ۔
ﺁﭖ ﺍﮔﺮﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﯾﮟ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺩﮨﺮﺍ ﺩﻭﮞ “ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺑﮯ ﭼﯿﻨﯽ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ” ﯾﺎ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﻓﻮﺭﺍً ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮯ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻥ ﺣﻠﻖ ﻣﯿﮟ ﺍﭨﮏ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ “ ﯾﺤﯿﯽٰ ﺧﺎﻟﺪ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ” ﮐﺴﯽ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﻨﺪﺭﯾﺎ ﺳﻔﺮ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ ‘ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﭽﮧ ﺗﮭﺎ ‘ ﻭﮦ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮯ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻭﮦ ﺷﯿﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ” ﺟﻨﺎﺏ ﺁﭖ ﺟﻨﮕﻞ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮨﯿﮟ ‘ ﻣﯿﮟ ﺳﻔﺮ ﭘﺮ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﮨﻮﮞ ‘ ﻣﯿﺮﯼ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮨﮯ ﺁﭖ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﺍﭘﻨﮯ ﺫﻣﮯ ﻟﮯ ﻟﯿﮟ “ ﺷﯿﺮ ﻧﮯ ﺣﺎﻣﯽ ﺑﮭﺮ ﻟﯽ ‘ ﺑﻨﺪﺭﯾﺎ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﭽﮧ ﺷﯿﺮ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔
ﺷﯿﺮ ﻧﮯ ﺑﭽﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻨﺪﮬﮯ ﭘﺮ ﺑﭩﮭﺎ ﻟﯿﺎ ‘ ﺑﻨﺪﺭﯾﺎ ﺳﻔﺮ ﭘﺮ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﮔﺌﯽ ‘ ﺍﺏ ﺷﯿﺮ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﺑﻨﺪﺭ ﮐﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﮐﻨﺪﮬﮯ ﭘﺮ ﺑﭩﮭﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﻭﺯﻣﺮﮦ ﮐﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺘﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻭﮦ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﻮﻡ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﭼﯿﻞ ﻧﮯ ﮈﺍﺋﯽ ﻟﮕﺎﺋﯽ ‘ ﺷﯿﺮ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﮩﻨﭽﯽ ‘ ﺑﻨﺪﺭﯾﺎ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮔﻢ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ‘ ﺷﯿﺮ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺎﮔﺎ ﺩﻭﮌﺍ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﭼﯿﻞ ﮐﻮ ﻧﮧ ﭘﮑﮍ ﺳﮑﺎ “ ﯾﺤﯿﯽٰ ﺧﺎﻟﺪ ﺭﮐﺎ ‘ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﺎﻧﺲ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺍﻟﺮﺷﯿﺪ ﺳﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ” ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﻼﻣﺖ ﭼﻨﺪ ﺩﻥ ﺑﻌﺪ ﺑﻨﺪﺭﯾﺎ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﯿﺮ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﺒﮧ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔
ﺷﯿﺮ ﻧﮯ ﺷﺮﻣﻨﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ‘ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺑﭽﮧ ﺗﻮ ﭼﯿﻞ ﻟﮯ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ‘ ﺑﻨﺪﺭﯾﺎ ﮐﻮ ﻏﺼﮧ ﺁﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭼﻼ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ” ﺗﻢ ﮐﯿﺴﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮨﻮ ‘ ﺗﻢ ﺍﯾﮏ ﺍﻣﺎﻧﺖ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ‘ ﺗﻢ ﺍﺱ ﺳﺎﺭﮮ ﺟﻨﮕﻞ ﮐﺎ ﻧﻈﺎﻡ ﮐﯿﺴﮯ ﭼﻼﺅ ﮔﮯ “ ﺷﯿﺮ ﻧﮯ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﺳﮯ ﺳﺮ ﮨﻼﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻻ
” ﻣﯿﮟ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮨﻮﮞ ‘ ﺍﮔﺮ ﺯﻣﯿﻦ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺁﻓﺖ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﮬﺘﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺭﻭﮎ ﻟﯿﺘﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﺁﻓﺖ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺳﮯ ﺍﺗﺮﯼ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﺁﻓﺘﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﺍﻭﺭ ﺻﺮﻑ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﻭﺍﻻ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔
ﯾﮧ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺳﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﯾﺤﯿﯽٰ ﺑﻦ ﺧﺎﻟﺪ ﻧﮯ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺍﻟﺮﺷﯿﺪ ﺳﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ” ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﻼﻣﺖ ﻗﺤﻂ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺁﻓﺖ ﺑﮭﯽ ﺍﮔﺮ ﺯﻣﯿﻦ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺍﺳﮯ ﺭﻭﮎ ﻟﯿﺘﮯ ‘ ﯾﮧ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﮐﺎ ﻋﺬﺍﺏ ﮨﮯ ‘ ﺍﺳﮯ ﺻﺮﻑ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺁﭖ ﺍﺳﮯ ﺭﮐﻮﺍﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮧ ﺑﻨﯿﮟ ‘ ﻓﻘﯿﺮ ﺑﻨﯿﮟ ‘ ﯾﮧ ﺁﻓﺖ ﺭﮎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ۔
ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺁﻓﺘﯿﮟ ﺩﻭ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ‘
ﺁﺳﻤﺎﻧﯽ ﻣﺼﯿﺒﺘﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺯﻣﯿﻨﯽ ﺁﻓﺘﯿﮟ۔
ﺁﺳﻤﺎﻧﯽ ﺁﻓﺖ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﺎ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮﻧﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﺯﻣﯿﻨﯽ ﺁﻓﺖ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﺅ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎﻣﺘﺤﺪ ﮨﻮﻧﺎ ‘ ﻭﺳﺎﺋﻞ ﮐﺎ ﺑﮭﺮ ﭘﻮﺭ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺍﻭﺭ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﺧﻼﺹ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﯾﺤﯿﯽٰ ﺑﻦ ﺧﺎﻟﺪ ﻧﮯ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺍﻟﺮﺷﯿﺪ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ
<<<< ﺁﺳﻤﺎﻧﯽ ﺁﻓﺘﯿﮟ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﺧﺘﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯿﮟ ﺟﺐ ﺗﮏ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﻮ ﺭﺍﺿﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﺎ ﺁﭖ ﺍﺱ ﺁﻓﺖ ﮐﺎﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﻦ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﯿﮟ ﮔﮯ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ
ﺁﭖ ﻓﻘﯿﺮ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﯿﮯ۔
ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﮔﺮ ﺟﺎﺋﯿﮯ
ﺍﺱ ﺳﮯ ﺗﻮﺑﮧ ﮐﯿﺠﺌﮯ ‘
ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺪﺩ ﻣﺎﻧﮕﯿﮯ۔
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﺍﻭﺭﺍﻥ ﮐﮯ ﺣﻞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺻﺮﻑ ﺍﺗﻨﺎ ﻓﺎﺻﻠﮧ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﺟﺘﻨﺎ ﻣﺎﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﺋﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﮐﮯ ﺣﻞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺳﺎﺕ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﭘﺎﺭ ﺗﻮ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺎﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﺋﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﭼﻨﺪ ﺍﻧﭻ ﮐﺎ ﻓﺎﺻﻠﮧ ﻃﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ۔ 

bachon k islami naam uska matlab in urdu

A

آدم Adam گندمی
آصف Asif ایک درخت کا نام
آفاق Afaq آسمانی کنارے
آفتاب Aftab سورج
ابان Aban واضح، ظاہر
ابتسام Ibtisam مسکرا نا
ابتھاج Ibtihaj خوشی
ابرار Abrarنیک
ابراھیم Ibrahim خادم، قوموں کا باپ
ابراھیم Ibrahim خادم
ابصار Absar بصیرت، دانائی
ابو ذر Abu Zarr پھیلانا، بکھیرنا
ابو ھریرہ Abu Huraira بلی کے بچے والا
ابیض Abyaz سفید
اتحاف Ittihaf تحفہ دینا
اثرم Asram توڑنا
اثیر Aseer بلند
اجلال Ijlal بزرگ ہونا
اجمد Ajmad لازم، ٹھہرنا
اجمل Ajmal بہت خوبصورت
احتشام Ihtisham شان و شوکت
احسان Ihsan نیکی کرنا
احسان الٰہی Ihsan Ilahi اللہ کا احسان
احسن Ahsan بہت اچھا، عمدہ
احمد Ahmad زیادہ تعریف والا
احوص Ahwas محتاط، رفو کرنا
ادریس Idrees پڑھا ہوا
ادلال Idlal ناز و نخرہ کرنا
ادھم Adham سیاہ
اربد Arbad اقامت، ابر آلود
ارتسام Irtisam نقش و نگار بنانا
ارتضٰی Irtaza پسندیدہ
ارجمند Arjumand قیمتی، پیارا
ارسلان Arsalan غلام، شیر
ارشاد Irshad راہنمائی
ارشد Arshad ہدایت یافتہ
ارقم Arqam تحریر، نشان والا
ارمغان Armaghan تحفہ، نذر
اریب Areeb عقل مند، عالم
ازرق Azraq نیلا
ازھر Azhar روشن
اسامہ Usama شیر، بلند
اسحاق Ishaq ہنسنے والا
اسد Asad شیر
اسرار Israr پوشیدہ، رازداری
اسعد Asad سعادت مند، خوش بخت
اسفند Asfand خدا کی قدرت
اسلم Aslim سلامت
اسماعیل Ismail پکار
اسمر Asmar کہانی گو
اسید Usaid چھوٹا شیر
اسیم Aseem بلند
اشتیاق Ishtiaq شوق
اشراق Ishraq طلوع آفتاب کا وقت
اشرف Ashraf اعلیٰ، شریف
اشعث Ashas بکھرا ہوا
اشعر Ashar معلومات رکھنے والا، سمجھدار
اشفاق Ishfaq مہربانی کرنا
اشھب Ashhab سفید، چمکدار
اصغر Asghar چھوٹا
اصیل Aseel شام
اطہر Athar بہت پاک، صاف ستھرا
اظفر Azfar نہایت کامیاب
اظھر Azhar نمایاں
اعتزاز Etizaz عزیز، خوبی والا ہونا
اعتصام Etisam مضبوطی سے پکڑنا
اعجاز Ejaz خوبی، کمال
اعظم Azam بہت بڑا
افتخار Iftikhar فخر
افراز Ifraz نمایاں کرنا، باہر نکالنا، بلند کرنا
افروز Afroz تابناک
افضال Afzaal مہربانی کرنا
افنان Afnan شاخیں
اقبال Iqbal متوجہ ہونا، اعتراف
اقرع Aqra کھٹکھٹانے والا، بہادر
اقمر Aqmar زیادہ روشن
اکرام Ikram مہربانی کرنا
اکرم Akram عزت دار، محترم
اکمال Ikmaal تکمیل، مکمل کرنا
اکمل Akmal مکمل
التمش Altamish فوج کا سردار
الطاف Altaf مہربانیاں
القاسم Alqasim تقسیم کرنے والا
الماس Ilmas ہیرا
الیاس Ilyas قائم و دائم
امتثال Imtisal اطاعت
امتنان Imtinan مشکور ہونا
امتیاز Imtiaz فرق، الگ
امین Amin امانت دار
امین Ameen امانت دار
انبساط Inbisat خوشی
انتسام Intisam خوشبو لگانا
انتصاب Intisab کھڑا کرنا، گاڑنا
انصر Ansar مدد کرنے والا
انضمام الحق Inzimamulhaq سچائی کا ملاپ، حق کا ادغام
انظار Inzar منظر، نظریں
انفاس Anfas سانس، نفیس چیزیں
انوار Anwar روشنیاں
انیس Unees پیارا
انیس Anees پیارا
انیف Aneef اچھوتا
انیل Aneel حاصل کرنا
اوج Aoj بلندی، اونچائی
اویس Uwais بھیڑیا
ایّاز Ayyaz مسلم جرنیل محمود غزنوی کا غلام
ایثار Isar قربانی، ترجیح
ایوب Ayub رجوع کرنے والا
بابر Babur شیر
بازغ baazigh روشن
بازل Bazil جوان
باسط Basit وسیع
باسق Basiq اونچا، بلند
باقر Baqir بڑا عالم
بخت Bakht نصیب، قسمت
بختیار Bakhtyar خوش بخت، اچھی قسمت والا
بدر الزمان Badruzzaman معروف، زمانے کا چاند
بدیع Badee بنانے والا
براء Bara بری، آزاد
برھان Burhan روشن دلیل
بسام Bassam کثرت سے مسکرانے والا
بشارت Basharat خوش خبری
بشیر Bashir بشارت دینے والا
بشیر Bashir بشارت دینے والا
بکیر Bukair نیا، انوکھا
بہاؤ الدین Bahauddeen دین کی روشنی
بہرام Bahram ایک ستارہ
تابش Tabish چمک
تاثیر Taseer اثر، نتیجہ، نشان
تاجدین Tajdeen دین کا تاج
تجمّل Tajammul زینت اختیار کرنا
تحسین Tahseen تعریف کرنا
تشریق Tashreeq چمکنا
تصدق Tasadduq قربان ہونا
تقیّ Taqi پرہیز گار
تمیم Tameem ارادہ کرنا، مضبوط، کامل
تنویر Tanveer روشن کرنا
تنویل Tanveel عطیہ دینا
توصیف Tauseef خوبی، بیان کرنا
توفیق Tofeeq موافقت
توقیر Tauqeer عزت کرنا، قوت دینا
ثاقب Saqib روشن
ثعلبہ Salabah لومڑی
ثقلین Saqalain جن و انسان، دو جہان
ثمال Samal کار گزار
ثمامہ Sumama اصلاح
ثمر Samar پھل
ثمین Sameen قیمتی
ثناء اللہ Sanaullah اللہ کی تعریف
ثوران Sauran جوش
جابر Jabir غالب، پر کرنے والا
جاحظ Jahiz بڑی اور ابھری آنکھ
جاذب Jazib پرکشش
جار اللہ Jarullah اللہ کی پناہ لینے والا
جازل Jazil خوش و خرم
جالب Jalib حاصل کرنے والا
جاوید Javaid قائم، ہمیشہ
جبران Muslih مصلح
جبیر Jubair غالب، پر کرنا
جبیر Jubair پر کرنے والا، غالب
جریر Jarir کھینچنے والا
جسیم Jaseem وزنی جسم والا
جلال Jalal شان، دبدبہ
جلیب Jaleeb ہانکنے والا
جلید Jaleed قوی، بہادر
جمال Jamal حسن، خوبصورتی
جمان Juman موتی
جمیل Jamil حسین، خوبصورت
جندب Jundub مکڑی کی ایک قسم
جنید Junaid چھوٹا لشکر
جہانگیر Jahangir زمانے پر چھا جانے والا
جہاں زیب Jahanzaib زمانے کی خوبصورتی
جواد Jawad سخی
جواد Jawwad سخی
جودت Jaudat عمدگی، بہتری
جویر Jaweer کھینچنے والا
حاتم Hatim لازم، ضروری
حارث Haris زمین درست کرنے والا، محنتی
حازم Hazim محتاط
حاطب Hatib ایندھن جمع کرنے والا
حافد Hafid دوست
حامد Hamid تعریف کرنے والا
حبیب Habib محبوب
حذافہ Huzafa سہولت
حذیفہ Huzaifa آسانی و آرام
حر Hur آزاد
حریث Hurais زمین سنوارنے والا
حریش Huraish گینڈا
حزام Hizam احتیاط
حسام Husam تلوار
حسامہ Husama تلوار چلانے والا ہاتھ
حسّان Hassaan خوبصورت
حسان Hisan خوبصورت
حسنین Hasnain حسن و حسین
حسیب Hasib حساب لینے والا
حسیل Husail تیز رفتار
حصیب Haseeb کنکریاں مارنے والا، اڑانے والا
حضیر Huzair شہری
حفص Hafs شیر، گھر
حفیظ Hafeez محافظ، نگران
حکیم Hakeem حکمت والا
حمّاد Hammad تعریف کرنے والا
حماس Himas محافظ، بہادر
حمدان Hamdan تعریف والا
حمزہ Hamza شیر
حمود Hamood تعریف والا
حمید Hameed تعریف والا
حمیر Humair سرخ
حمیز Hameez دانا، عقل مند
حمیس Hamees بہادر
حمیل Hameel ضامن، بوجھ اٹھانے والا
حنان Hannan مشفق
حنبل Hanbal قوی، قوت والا
حنیف Hanif موّحد، علیحدہ
حیدر Haidar شیر، بہادر
خاطف Khatif چھیننے والا
خالد Khalid ہمیشہ
خالد Khalid ہمیشہ
خاور Khawar مشرق
خبّاب Khabbab بلند، تیز رفتار
خبیب Khubaib بلند، اونچا
خذیمہ Khuzaima ترتیب دینا
خرم Khurram خوش
خریم Khuraim خوش، ہلکا پھلکا
خشام Khusham شیر
خضر Khizar سرسبز
خطیب Khatib بات کرنے والا
خلاد Khallad سدا
خلاس Khilas بہادر
خلید Khaleed ہمیشہ
خلیس Khalees بہادر
خلیق Khaleeq اخلاق والا
خلیل Khalil دوست، ولی
خلیل Khalil دوست، ولی
خنسان Khansan چھپنے والا
خنیس Khunis چھپنے والا
خورشید Khurshid سورج، آفتاب
خیرون Khairoon بہتر
داؤد Daud عزیز دوست
داشاب Dashab عطاء، بخشش
دانش Danish عقل، شعور
دانیال Daniyal پیغمبر کا نام
داہیم Daheem مرصع تاج
دحیہ Dihya فوج کا سربراہ
دران Durran موتی
درید Duraid ایک جانور
درید Duraid اختتام، ایک جانور کا نام
دلاور Dilawar بہادر
ذاہیل Zaheel غائب، پگھلنا
ذبیح Zabeeh ذبح ہونے والا
ذکاء Zaka ذہانت
ذکوان Zakwan روشن
ذکی Zakiy ذہین
ذہیب Zuhaib سونے کا ٹکرا
ذوالفقار Zulfiqar مہروں والی تلوار
ذوالقرنین Zulqarnain دو حکومتوں والا
ذوالکفل Zulkifl ضامن
راحیل Raheel مسافر
راسخ Rasikh مضبوط، ماہر
راشد Rashid ہدایت یافتہ
راغب Raghib مائل
رافع Raafe اٹھانے والا
رامش Ramish آرام و خوشی
رامین Rameen تیر انداز، محب
رباب Rubab ایک قسم کا ساز
ربیط Rabeet رابطہ، حکیم
ربیع Rabee بہادر
ربیعی Rabiee باغ والا، بہار والا
رحیض Raheez دھلا ہوا
رحیق Rahiq جنت میں ایک شراب کا نام
رزین Razeen مقیم، رہائش، پختہ
رساول Rasawal کھیر کی قسم
رسیم Rasim نقش بنانے والا، تحریر کرنے والا
رشید Rasheed شریف، ہدایت یافتہ
رشید Rasheed ہدایت یافتہ
رشید Rasheed شریف، بھلا مانس
رضوان Rizwan رضا، جنت کے دربان کا نام
رضی Razi پسندیدہ
رعمیس Ramees مصر کا بادشاہ
رفیع Rafi اونچا، بلند
رفیق Rafiq ساتھی، دوست
رقی Raqi ترقی، چڑھنا
رقیب Raqib نگران
رقیم Raqeem تحریر، کتاب
رقیم Raqeem تحریر، تختی
رمضان Ramazan اسلامی کیلنڈر کا مہینہ
رمیز Rameez تیز تلوار
رہواز Rahwaz خوش رفتار
رواحہ Rawaha سرور
روح الامین Ruhul Amin پاک روح
رومان Ruman وسط، درمیان
رویفع Ruwaifa بلند، شریف
ریاض Riaz باغیچے
ریحان Raihan خوشبو، نیاز بو
زؤیب Zuaib چلنا، نکلنا
زاھر Zahir چمکیلا
زاہد Zahid متقی، پرہیز گار
زاہیر Zaaheer کھلا ہوا پھول
زبرج Zibrij آرائش
زبیر Zubair شیر، محرر
زخرف Zukhruf مزین، آراستہ
زرعہ Zurah کھیتی باڑی، بیج بونا
زرناب Zarnab خالص سونا
زعیم Zaeem ذمہ دار
زکریا Zakariya بھرنا، پر کرنا
زکی Zaki پاک و صاف
زمر Zumar گروہ
زمرد Zamurrad قیمتی پتھر
زمعہ Zamah دبدبہ
زمیر Zameer خوبصورت
زمیل Zameel ساتھی، دوست
زہاد Zahhad نہایت خوددار
زہید Zuhaid زاہد، پرہیز گار
زہیر Zuhair شگوفہ
زیب Zeb حسن، زینت
زید Zaid زائد
زیدون Zaidoon زائد، اضافہ
زیرک Zeerak ہوشیار
زین Zain زینت
سائق Saiq قائد
ساجد Sajid سجدہ کرنے والا
سادات Sadat سردار، آل رسول
سالک Salik چلنے والا، اختیار کرنے والا
سالم Salim صحیح
سامر Samir کہانی گو
سبحان Subhan پاک
سبطین Sibtain نسل، دو پوتے
سجاول Sajawal سنوارا ہوا
سحاب Sahaab بادل
سحبان Sahban کھینچنے والا
سحیم Suhaim برسنے والا
سدید Sadid درست، مضبوط
سدیس Sudais چھٹا، لڑکپن
سراج Siraj چراغ
سراقہ Suraqa چھپی چیز
سرحان Sirhan شیر، بھیڑیا
سرمد Sarmad ہمیشہ
سروپ Suroop خوبصورتی
سرور Sarwar سردار
سعود Saood سعادت مند، بلند
سعید Saeed خوش بخت
سلامت Salamat محفوظ
سلسبیل Salsabil جنت کا چشمہ
سلطان Sultan بادشاہ، دلیل
سلکان Silkan مرتب
سلمان Salamat سلامت
سلیط Saleet اچھی نسل
سلیک Sulaik راہ گیر
سلیل Saleel بے نیام تلوار
سلیم Saleem سلامت، محفوظ
سلیم Saleem سلامت، محفوظ
سلیمان Sulaiman زینہ، سلامتی
سمّاک Sammak مچھلی فروش
سمران Samraan قصہ گو
سمسام Samsaam تلوار
سمید Sameed سفید میدہ
سمیر Sameer قصہ گو
سمیط Sameet موتی کی لڑی
سنان Sinan نیزے کا بھالا
سندان Sindan بہادر
سہیل Suhail آسان، روشن ستارہ
سہیم Saheem شریک، ساتھی
سیرین Sireen قائد، راہنما
سیف Saif تلوار
سیماب Simab چاندی
شارق Shariq طلوع ہونے والا
شازب Shazib تربیت یافتہ
شاکر Shakir قدر دان، شکر کرنے والا
شاھد Shahid گواہ، دیکھنے والا
شاھد Shahid گواہ
شاہ زیب Shahzeb شاہی حسن
شاہین Shaheen باز
شبرمہ Shubruma عطیہ، شیر کا بچہ
شبیب Shabeeb روشن، جوان
شبیر Shabbeer نیک، خوبصورت
شجاع Shuja بہادر
شرافت Sharafat بزرگی
شرید Shareed الگ تھلگ
شریع Shurai وضاحت کرنے والا
شریق Shareeq ظاہر، خوبصورت
شعیب Shuaib حصہ، جمع و تفریق
شفقت Shafqat مہربانی
شفیع Shafee سفارش کرنے والا
شفیع Shafee شفاعت کرنے والا
شفیق Shafeeq مہربان
شکیب Shakeeb صبر کرنے والا
شکیل Shakeel خوبصورت
شمّاس Shammaas خادم، روشن، چمکیلا
شمشاد Shamshad ایک درخت
شملید Shamleed خوشنما پھول
شمیر Shameer تیز رفتار، کوشش
شھاب Shihab شعلہ، گرم تارہ
شہیم Shaheem سمجھ دار
شیث Shees کثرت
شیراز Shiraz سخت، فوجی
شیرون Shairoon شیر
صائب Saaib درست
صابر Sabir صبر کرنے والا
صادق Sadiq سچا، راست گو
صادقین Sadiqeen سچے
صالح Salih نیک
صبحان Sabhan خوبصورت
صبغۃ اللہ Sibghatulla اللہ کا رنگ
صبیح Sabeeh صبح، روشن
صداقت Sadaqat سچائی
صدام Saddam ٹکرانے والا
صدیق Siddiq دوست
صدیق Siddeeq سچا
صدیق Sadeeq دوست
صغیر Saghir چھوٹا
صفدر Safdar بہادر، منتخب
صفران Safran سریلی آواز والی، زرد
صفوان Safwan صاف چٹان
صفی Safi منتخب
صلدم Saldam شیر
صمصام Samsaam تیز تلوار
صھیب Suhaib سرخ، سیاہی مائل
صولت Saolat رعب، ہیبت
ضحّاک Zahhak ہنسنے والا
ضرّار Zarrar صابر، دشمن کیلئے مضر
ضرغام Zargham قوت والا شیر
ضریس Zarees چیر پھاڑ کرنے والا
ضمّاد Zammaad معالج، ایک دوا
ضماد Zimad معالج
ضمام Zimam ملنا
ضمیر Zumair پوشیدہ
ضمیر Zameer چھپا، مخفی
ضیاء Zia روشنی
ضیغم Zaigham شیر
طارف Tarif عمدہ، تازہ
طارق Tariq چمکنے والا، روشن تارہ
طالب Talib طلب کرنے والا
طاہر Tahir پاک، صاف
طریر Tareeq خوبصورت
طریف Tareef عمدہ، کنارہ کش
طفیل Tufail پیارا بچہ، ذریعہ
طلال Talaal خوبصورت
طلیق Taleeq ہنس مکھ
طیب Tayyib پاک، اچھا
ظافر Zafir کامیاب
ظریف Zareef خوش طبع
ظفار Zaffaar نہایت کامیاب
ظفر Zafar کامیابی
ظفیر Zafeer کامیاب
ظہور Zahoor نمایاں، نمودار
ظہیر Zaheer مدد گار، پشت پناہی کرنے والا
عائذ Aiz پناہ لینے والا
عابد Abid عبادت کرنے والا
عاتف Atif کاٹنے والا
عادل Adil انصاف کرنے والا
عازب Azib الگ
عاشر Ashir دسواں
عاصف Asif تند و تیز
عاصم Asim بچانے والا
عاصم Asim بچانے والا
عاطر Atir خوشبو دار
عاطف Atif مہربان
عاقب Aqib آخری
عاقب Aqib آخری
عاقل Aqil عقل والا
عاکف Akif پابند
عامر Amir آباد کرنے والا
عبّاد Abbad عبادت گزار
عبد الاعلٰی Abdul Ala سب سے اونچی ذات والے کا بندہ
عبد الباقی Abdul Baqi سدا رہنے والے کا بندہ
عبد البصیر Abdul Basir ہمہ وقت دیکھنے والے کا بندہ
عبد التواب Abdut Tawwab توبہ قبول کرنے والے کا بندہ
عبد الجبار Abdul Jabbar زبردست ذات والے کا بندہ
عبد الجلیل Abdul Jalil جلالت، بزرگی والے کا بندہ
عبد الحسیب Abdul Hasib حساب لینے والے کا بندہ
عبد الحفیظ Abdul Hafeez حفاظت کرنے والے کا بندہ
عبد الحکم Abdul Hakam فیصلہ کرنے والے کا بندہ
عبد الحکیم Abdul Hakeem حکمت والے کا بندہ
عبد الحلیم Abdul Halim بردبار ذات والے کا بندہ
عبد الحمید Abdul Hameed تعریف والے کا بندہ
عبد الحنان Abdul Hannan مہربانی کرنے والے کا بندہ
عبد الحیی Abdul Hay ہمیشہ زندہ رہنے والے کا بندہ
عبد الخالق Abdul Khaliq پیدا کرنے والے کا بندہ
عبد الخبیر Abdul Khabir خبردار رہنے والے کا بندہ
عبد الدیان Abdud Dayyan بدلہ دینے والے کا بندہ
عبد الرؤوف Abdur Rauf شفقت کرنے والے کا بندہ
عبد الرب Abdur Rabb پالنے والے کا بندہ
عبد الرحمان Abdur Rahman رحم کرنے والے کا بندہ
عبد الرحیم Abdur Rahim رحم کرنے والے کا بندہ
عبد الرزاق Abdur Razzaq رزق دینے والے کا بندہ
عبد الرشید Abdur Rasheed راہنمائی کرنے والے کا بندہ
عبد الرقیب Abdur Raqib خیال رکھنے والے کا بندہ
عبد السبحان Abdus Subhan پاک ذات کا بندہ
عبد الستیر Abdus Sittir چھپانے والے کا بندہ
عبد السلام Abdus Salam سلامتی والے کا بندہ
عبد السمیع Abdus Sami سننے والے کا بندہ
عبد الشکور Abdush Shakur قدر دان کا بندہ
عبد الصبور Abdus Sabur صابر ذات والے کا بندہ
عبد الصمد Abdus Samad بے نیاز کا بندہ
عبد العزیز Abdul Aziz غالب ذات کا بندہ
عبد العظیم Abdul Azeem بڑائی والے کا بندہ
عبد العلیم Abdul Aleem علم والے کا بندہ
عبد الغالب Abdul Ghalib غلبے والے کا بندہ
عبد الغفار Abdul Ghaffar بہت بخشنے والے کا بندہ
عبد الغفور Abdul Ghafur معاف کرنے والے کا بندہ
عبد الغنی Abdul Ghani بے حاجت ذات کا بندہ
عبد الفتّاح Abdul Fattah کھولنے والے کا بندہ
عبد القابض Abdul Qabiz قابض ذات کا بندہ
عبد القادر Abdul Qadir قدرت والے کا بندہ
عبد القدوس Abdul Quddoos پاک ذات کا بندہ
عبد القدیر Abdul Qadeer قدرت رکھنے والے کا بندہ
عبد القوی Abdul Qawi قوت والے کا بندہ
عبد القیّوم Abdul Qayyum قائم رہنے والے کا بندہ
عبد الکریم Abdul Karim کرم کرنے والے کا بندہ
عبد الکفیل Abdul Kafil کفالت کرنے والے کا بندہ
عبد اللطیف Abdul Latif مہربان ذات کا بندہ
عبد اللہ Abdullah اللہ کا بندہ
عبد اللہ Abdullah اللہ کا بندہ
عبد المؤمن Abdul Mumin امن دینے والے کا بندہ
عبد الماجد Abdul Majid بزرگ ذات کا بندہ
عبد المالک Abdul Malik مالک کا بندہ
عبد المتین Abdul Matin مضبوط ذات کا بندہ
عبد المجیب Abdul Mujib قبول کرنے والے کا بندہ
عبد المجید Abdul Majeed بزرگ ذات کا بندہ
عبد المصور Abdul Musawwir صورت بنانے والے کا بندہ
عبد المعید Abdul Mueed پناہ دینے والے کا بندہ
عبد المقتدر Abdul Muqtadir اقتدار والے کا بندہ
عبد المقیت Abdul Muqit روزی دینے والے کا بندہ
عبد الملک Abdul Malik مالک، بادشاہ کا بندہ
عبد المنان Abdul Mannan احسان کرنے والے کا بندہ
عبد المنعم Abdul Munim انعام کرنے والے کا بندہ
عبد المھیمن Abdul Muhaiman محافظ، نگہبان کا بندہ
عبد النصیر Abdun Naseer مددگار ذات کا بندہ
عبد الھادی Abdul Hadi ہدایت دینے والے کا بندہ
عبد الواجد Abdul Wajid حاصل کرنے والے کا بندہ
عبد الوارث Abdul Waris وارث بننے والے کا بندہ
عبد الوحید Abdul Waheed واحد ذات والے کا بندہ
عبد الودود Abdul Wadud محبت کرنے والے کا بندہ
عبد الوکیل Abdul Wakil کار ساز کا بندہ
عبد الولی Abdul Wali دوست بننے والی ذات کا بندہ
عبد الوھّاب Abdul Wahhab عطاء کرنے والے کا بندہ
عبدان Abdan عبادت گزار
عبید Ubaid عاجز بندہ
عبید اللہ Ubaidulla اللہ کا عاجز بندہ
عبیر Abeer ایک خوشبو، عبور
عتبان Itban ڈانٹنا
عتیق Ateeq آزاد
عتیل Ateel پیاسا
عجلان Ajlan جلد باز
عداس Adas نگران
عدن Adan جنت کا نام
عدنان Adnan ہمیشہ رہنے والا
عدی Adi بڑھنا
عدیل Adeel منصف
عرباض Irbaz مضبوط
عرفان Irfan معرفت والا
عروہ Urwah کڑا
عزیر Uzair تعاون کرنا
عسار Asar درویشی
عسجد Asjud سونا، جوہر
عصام Isam محفوظ
عصیب Aseeb مضبوط، حمایتی
عصیم Aseem محفوظ
عفیر Afeer خالی، بے آباد
عقبان Uqban عقاب کی جمع
عقبہ Aqabah گھاٹی، آخری
عقیب Aqeeb پچھلا
عقیل Aqeel عقل مند
عکرمہ Ikrama کبوتر
علقمہ Alqamah لقمہ
علم الدین Alamuddeen دین کا جھنڈا
عماد الدین Imaduddeen دین کا ستون
عمران Imran آبادی
عمرو Amr آبادی
عمید Ameed سردار، ذمہ دار
عمیر Umair آباد کرنے والا
عمیس Umais طاقت ور
عمیس Amees طاقت ور
عنان Annaan تیز رفتار
عنان Anan لگام، بادل
عنایت Inayat عطیہ
عون Aon مدد
عویم Uwaim سال
عیاض Iyaz خلیفہ
عیسٰی Isa زندگی والا
عین الاسلام Ainulislam اسلام کا چشمہ
غالب Ghalib طاقتور، غالب
غضنفر Ghuzanfar شیر
غفران Ghufran بخشش
غمام Ghammam بادل
غوشاد Ghaoshad اونچا درخت
غیاض Ghayyaz شیر کی جنگی
غیور Ghayoor غیرت مند
فاخر Fakhir بہت قیمت والا
فاران Faran ایک پہاڑ کا نام
فاروق Farooq حق و باطل میں فرق
فاضل Fazil فضیلت والا
فالق Faliq نکالنے والا، کھولنے والا
فخراج Fakhraj مشہور ہیرا
فراز Faraz بلندی، کھلا
فراس Firas فراست والا
فراس Farras فراست والا
فرحان Farhan خوش
فرزدق Farazdaq آٹے کا پیڑا
فرقان Furqan معجزہ، فرق کرنے والا
فرقد Farqad ستاروں کا مجموعہ
فرید Fareed انمول موتی
فریدون Faridoon موتی
فضل Fazl رحمت، کرم
فضیل Fuzail فضل والا
فھد Fahad چیتا
فہیم Faheem سمجھ دار
فواد Fuad دل
فیاض Fayyaz سخی
فیروز Fairoz کامیاب
فیصل Faisal فیصلہ کرنے والا
فیض Faiz عطیہ، کرم
فیضان Faizan عطیہ، تحفہ
قاسم Qasim تقسیم کرنے والا
قتادہ Qatada منصوبہ، ایک درخت
قتیبہ Tutaibah پلان، مشہور سپہ سالار
قدامہ Quddama پیش، آگے
قدامہ Qudama پیشوا
قذافی Qazzafi جنگل کا باشندہ
قسیم Qaseem حصہ دار، تقسیم کرنے والا
قطب الدین Qutbuddeen دین کا محور
قعقاع Qaqa اسلحہ کی جھنکار
قمر Qamar چاند
قنوان Qinwan جوڑا
قیس Qais اندازہ
قیم Qayyim صحیح، قائم
کاشف Kashif کھولنے والا
کاظم Kazim برداشت کرنے والا
کامران Kamran کامیاب
کامن Kamin عام، پوشیدہ
کبیر Kabir بڑا
کثیب Kaseeb ٹیلہ
کحیل Kaheel سرمئی آنکھ والا
کرز Kurz ذہین، شریف
کریب Kuraib گنے کی پوری، مشکل زدہ
کشاف Kashaaf کھولنے والا
کعب Kab اونچائی
کفایت Kafayat کافی
کفل Kifl حصہ
کلیم Kalim کلام کرنے والا
کلیم اللہ Kaleemullah اللہ سے بات کرنے والا
کوکب Kokab ستارہ
کیہان Kaihan جہان
گل بار Gulbar پھول برسانے والا
گل ریز Gulrez پھول بکھیرنے والا
گل زار Gulzar باغ
گل زیب Gulzeb خوبصورت پھول
گل فام Gulfam پھول کی نسل
گوہر Gohar موتی
لئیق Lyq قابل، لائق
لبیب Labeeb لائق
لبید Labeed کثیر، زیادہ
لبیق Labeeq دانا
لطف اللہ Lutfullah اللہ کی مہربانی
لقمان Luqman دانا، تجربہ کار
لوط Lut دلی محبت
لیاقت Liaqat قابلیت
لیث Lais شیر
ماجد Majid بزرگ
مالک Malik آقا
مامون Mamoon محفوظ
مامون Mamun محفوظ
مبارک Mubarak بابرکت
مبشر Mubashir خوشخبری دینے والا
مبشر Mubashir خوش خبری دینے والا
مبین Mubeen واضح
متین Matin مضبوط
مثنّی Musanna ملا ہوا
مجتبٰی Mujtaba چنا ہوا
مجدد Mujaddid تجدید کرنے والا
محبوب Mahboob پسندیدہ
محتشم Muhtashim شان و شوکت والا
محسن Mushin احسان کرنے والا
محصن Muhsin پاک باز
محصن Muhsan پاک باز
محمد Muhammad تعریف کیا ہوا۔
محمود Mahmud تعریف کیا گیا
محمود Mahmud تعریف کیا گیا
محیص Mahis پناہ گاہ
محیصہ Muhayyisa تعاون کرنے والا
مخدوم Makhdoom قابل خدمت
مدثر Mudassir چادر اوڑھنے والا
مذیب Muzeeb پگھلانے والا
مرتضٰی Murtaza پسندیدہ
مرثد Marsad معزز، ترتیب شدہ
مرجان Marjan قیمتی پتھر
مرداس Mirdas پتھر
مرشد Murshid راہ نما
مرصد Marsad گھات
مرغوب Marghoob پسندیدہ
مروان Marwan سخت چٹان
مزمل Muzzammil کپڑا اوڑھنے والا
مساور Musavir تیز، پر جذبہ
مستحاب Mustahaab مقبول
مستحسن Mustahsan اچھا
مستطاب Mustatab عمدہ، مبارک
مستنصر Mustansir مدد حاصل کرنے والا
مسطح Mistah فصیح، سطح
مسعود Masood سعادت مند
مسکین Miskeen عاجز، انکساری اختیار کرنے والا
مسیّب Musayyab جاری، تارک
مشاہد Mushahid دیکھنے والا
مشرف Mushrif نگران
مشرف Musharraf مقبول
مصباح Misbah چراغ
مصدق Musaddiq تصدیق کرنے والا
مصطفٰی Mustafa چنا ہوا
مصعب Musab دشوار
مطیب Mutayyib پاکیزہ
مطیع اللہ Muteeullah اللہ تعالٰی کا فرمانبردار
مظفر Muzaffar کامیاب
مظہر Mazhar نمایاں
معاذ Muaz پناہ یافتہ
معاویہ Muawia چلّانے والا
معتّب Muattib ڈانٹنے والا
معتصم Mutasim مضبوطی سے پکڑنے والا
معراج Miraj سیڑھی، بلندی
معظم Muazzim عظیم
معین Mueen مدد گار
مغیرہ Mughirah لوٹنے والا، حملہ آور
مقبول Maqbool پسندیدہ، معروف
مقداد Midad توڑنے کا آلہ
مقصود Maqsood مطلوب، مقصد
مقیم Muqim قائم رہنے والا، ہمیشہ
مکتفی Muktafi کافی، پورا
مکتوم Maktoom چھپا ہوا
مکحول Makhool سرمئی آنکھوں والا
مکنون Maknun چھپا ہوا
ملیل Maleel اکتایا ہوا
منتقٰی Muntaqa منتخب
منذر Munzir ڈرانے والا
منشا Mansha چاہت، اٹھنا
منصور Mansur مدد کیا ہوا
منصور Mansur مدد یافتہ
منضود Manzud تہہ بہ تہہ، بالترتیب
منظور Manzoor قبول شدہ
منکدر Munkadir تیز رفتار، گدلا
منھاج Minhaj لائحہ عمل، طریقہ کار
منور Munawwar روشن
منیب Munib رجوع کرنے والا
منیر Munir روشن
منیع Manee محفوظ
منیق Maneeq بڑا
مھران Mihran خوبصورت
مھیمن Muhaimin محافظ، نگران
مہدی Mahdiy ہدایت یافتہ
مہذب Muhazzab تہذیب والا
مہیر Maheer چاند
موسٰی Musa پانی سے نکالا ہوا
میمون Maimoon متبرک، برکت والا
نابغہ Nabigha فصیح و بلیغ
ناصح Nasih خیر خواہ، نصیحت کرنے والا
ناصر Nasir مددگار
نبیع Nabee شان والا
نثار Nisar قربان
نجم Najam تارا، نرم پودا
نجیب Najeeb لائق، بہادر
ندیم Nadeem ساتھی
نذیر Nazir ڈرانے والا
نصر Nasr مدد
نصر اللہ Nasrulla اللہ کی مدد
نصیر Naseer مددگار
نعمان Numan سرخ پھول، نعمت والا
نعیم Nuaim نعمت والا
نقاش Naqqash نقش و نگار بنانے والا
نقی Naqiy صاف، پاک
نقیب Naqeeb سردار
نمر Namar چیتا
نمیر Numair صاف، چیتا
نہال Nahhal خوش حال، تازہ
نوازش Nawazish مہربانی
نواس Nawas پر سکون مقام
نواس Nawwas پرسکون مقام
نوح Nuh آرام، بلند
نور Noor روشنی
نورس Naoras نیا، تازہ
نوید Naveed خوش خبری
نویر Naveer روشنی والا
نیر Nayyar روشن
ہارون Haroon سردار، سالار، قوی
ہاشم Hashim سخی، توڑنے والا
ہشام Hashaam بہت سخی
ہلال Hilal چاند
ہمام Hammam کر گزرنے والا
ہمایوں Hamayun مبارک، سلطان
ہناد Hannad جماعت، اجتماع
ہنید Hunaid جماعت
ہود Hood توبہ کرنے والا
ہیثم Haisam شیر
واثق Wasiq اعتماد کرنے والا
وارث Waris حصہ دار
واصف Wasif صفت کرنے والا
واصل Wasil ملانے والا
واقد Waqid روشن کرنے والا
وثیق Waseeq پختہ
وثیل Waseel مضبوط
وجیہ Wajeeh روشن، خوبصورت
وحید Waheed یکتا، اکیلا
وسیم Waseem چاندی، خوبصورت
وشیق Washeeq قابل اعتماد، مضبوط
وفیق Wafeeq توفیق والا
وقار Waqar عزت، جاہ و جلال
وقاص Waqqas جنگجو، توڑنے والا
وکیع Wakee مستحکم، مضبوط
ولید Waleed پیارا بچہ
ولید Waleed پیارہ بچہ
وھّاج Wahhaj روشن
یاسر Yasir آسان
یاسین Yasin سورت کا نام
یامین Yameen برکت و قوت
یحیٰی Yahya زندہ رہنے والا
یسع Yasa فراخ، کشادہ
یعسوب Yasoob قوم کا سردار
یعقوب Yaqub پیچھے آنے والا
یقظان Yaqzan بیدار، ہوشیار
یمان Yaman مبارک
یوسف Yusuf حسین، پاک باز
یوشع Yusha چڑھائی و بلندی
یونس Yunus مانوس
ﮐﻢ ﺳِﻦ ﺩﺍﺋﻮﺩؑ ﮐﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﻓﺘﺢ
ﻗﻮﻡِ ﻋﻤﺎﻟﻘﮧ ﮐﮯ ﻇﺎﻟﻢ ﻭ ﺟﺎﺑﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ، ﺟﺎﻟﻮﺕ ﮐﯽ ﻓﻮﺝ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺻﻒ ﺍٓﺭﺍ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ، ﺣﻀﺮﺕ ﻃﺎﻟﻮﺕ ﮐﮯ ﻟﺸﮑﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮐﻢ ﻋُﻤﺮ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻏﻠﯿﻞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺷﺎﻣﻞ ﺗﮭﺎ، ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﻧﻮ ﻋُﻤﺮ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍُﺳﮯ ﺍﺳﻠﺤﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﺎﻟﻮﺕ ﺟﺴﻢ ﮐﻮ ﺳﺎﻣﺎﻥِ ﺣﺮﺏ ﺳﮯ ﺳﺠﺎﺋﮯ، ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺭﻋﻮﻧﺖ ﺍﻭﺭ ﺗﮑﺒّﺮ ﺳﮯ ﺷﺎﮨﯽ ﺳﻮﺍﺭﯼ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺍﮨﻞِ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﻮ ﺩﻋﻮﺕِ ﻣﺒﺎﺭﺯﺕ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺑﮭﯽ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﺎ ﯾﮧ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﺳﺎ ﻟﺸﮑﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮐﺮ ﭘﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﺻﻔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﯾﮧ ﮐﻢ ﻋُﻤﺮ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻋﻘﺎﺏ ﺟﯿﺴﯽ ﺑﺮﻕ ﺭﻓﺘﺎﺭﯼ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻼ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﻟﻮﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﺍُﺳﮯ ﻟﻠﮑﺎﺭﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﮔﻮﺷﺖ ﮐﮯ ﭘﮩﺎﮌ، ﻟﺤﯿﻢ ﺷﺤﯿﻢ ﺍﻭﺭ ﻃﻮﯾﻞ ﺍﻟﻘﺎﻣﺖ ﺟﺎﻟﻮﺕ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ، ﺗﻮ ﺣﻘﺎﺭﺕ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ ’’ ﺟﺎ ! ﻣﯿﺮﯼ ﺍٓﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﮯ ﺩُﻭﺭ ﮨﻮ ﺟﺎ، ﻣَﯿﮟ ﺗﺠﮭﮯ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﺴﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ۔ ‘‘ ﺑﮯ ﺧﻮﻑ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺍٓﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍٓﻧﮑﮭﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﮔﺮﺝ ﺩﺍﺭ ﺍٓﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ’’ ﻟﯿﮑﻦ ﺗﺠﮭﮯ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﻧﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺴﻨﺪ ﮨﮯ۔ ‘‘ ﭘﮭﺮ ﻓﻠﮏ ﭘﺮ ﭼﻤﮑﺘﮯ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﯽ ﺗﯿﺰ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺽ ﻭ ﺳﻤﺎ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺣﯿﺮﺕ ﺍﻧﮕﯿﺰ ﻣﻨﻈﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﯽ ﻏﻠﯿﻞ ﺳﮯ ﮔﻮﻟﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻧﮑﻠﮯ ﭘﺘﮭﺮ ﺳﮯ ﺟﺎﻟﻮﺕ ﮐﺎ ﻣﺘﮑﺒّﺮ ﺳَﺮ ﭘﺎﺵ ﭘﺎﺵ ﮨﻮ ﭼُﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﻃﺎﻗﺖ ﻭَﺭ ﺟﺴﻢ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺍﻭﻧﺪﮬﮯ ﻣﻨﮧ ﭘﮍﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺍِﺗﻨﺎ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺟﺎﻟﻮﺕ ﮐﯽ ﺍﺳﻠﺤﮯ ﺳﮯ ﻟﯿﺲ ﻓﻮﺝ ﮐﻮ ﺳﻨﺒﮭﻠﻨﮯ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻊ ﮨﯽ ﻧﮧ ﻣﻼ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﺪﺣﻮﺍﺱ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺑﮭﺎﮒ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﯾﮧ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺍﯾﮏ ﭼﺮﻭﺍﮨﺎ ﺗﮭﺎ، ﺟﻮ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﮑﺮﯾﺎﮞ ﭼَﺮﺍﯾﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﻏﻠﯿﻞ ﺳﮯ ﺑﮑﺮﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺍٓﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺩﺭﻧﺪﻭﮞ ﮐﻮ ﻣﺎﺭ ﺑﮭﮕﺎﺗﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﻗﺪﺭﺕ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﮍﮮ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍُﺳﮯ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍُﺳﮯ ﻧﺒﻮّﺕ ﺍﻭﺭ ﺭﺳﺎﻟﺖ ﮐﮯ ﻋﻈﯿﻢ ﻣﻨﺼﺐ ﭘﺮ ﻓﺎﺋﺰ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ۔ ﻗﺮﺍٓﻥِ ﭘﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﮨﮯ ’’ ﺩﺍﺋﻮﺩؑ ﻧﮯ ﺟﺎﻟﻮﺕ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮ ﮈﺍﻻ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺍُﻥ ﮐﻮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﺍﻧﺎﺋﯽ ﺑﺨﺸﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﻦ ﺟﻦ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﺎ ﭼﺎﮨﺎ، ﺍُﻧﮭﯿﮟ ﻋﻠﻢ ﺩﯾﺎ۔ ‘‘ ‏( ﺳﻮﺭۃ ﺍﻟﺒﻘﺮﮦ، 251 ‏)
ﺣﺴﺐ ﻧﺴﺐ، ﻧﺒﻮّﺕ ﻭ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﯽ
ﺣﻀﺮﺕ ﺩﺍﺋﻮﺩؑ 965 ﻗﺒﻞِ ﻣﺴﯿﺢ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ۔ ﺍٓﭖؑ ،ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﮐﯽ ﻧﺴﻞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻣﺤﻤّﺪ ﺑﻦ ﺍﺳﺤﺎﻕؓ، ﺣﻀﺮﺕ ﻭﮨﺐ ﺑﻦ ﻣﻨﺒﮧؒ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺩﺍﺋﻮﺩؑ ﭘَﺴﺘﮧ ﻗﺪ ﺗﮭﮯ۔ ﺍٓﻧﮑﮭﯿﮟ ﻧﯿﻠﯽ ﺗﮭﯿﮟ، ﺟﺴﻢ ﭘﺮ ﺑﺎﻝ ﺑﮩﺖ ﮐﻢ ﺗﮭﮯ، ﭼﮩﺮﮮ ﺳﮯ ﭘﺎﮐﯿﺰﮔﯽ ﺟﮭﻠﮑﺘﯽ ﺗﮭﯽ، ﻧﮩﺎﯾﺖ ﮨﻢ ﺩﺭﺩ، ﻗﻮﯼ، ﺑﮩﺎﺩﺭ ﺍﻭﺭ ﻧﮉﺭ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ، ﺣﮑﻢ ﺭﺍﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﻗﻮّﺕ ﺗﺤﻔﮧٔ ﺧﺪﺍﻭﻧﺪﯼ ﺗﮭﯽ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﺩﺍﺋﻮﺩؑ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﻧﺒﻮّﺕ ’’ ﺍٓﻝِ ﻻﻭﯼ ﺑﻦ ﯾﻌﻘﻮﺏؑ ‘‘ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯽ ﺍٓﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﺖ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ’’ ﯾﮩﻮﺩﺍ ﺑﻦ ﯾﻌﻘﻮﺏؑ ‘‘ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯽ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻟﻠﮧ ﺭﺏّ ﺍﻟﻌﺰّﺕ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﻋﺰﺍﺯﺍﺕ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻊ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﺋﯿﮯ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﺩﺍﺋﻮﺩؑ، ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺑﺮﮔﺰﯾﺪﮦ ﻧﺒﯽ ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻮﻝ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﮭﯽ۔ ﺍﻧﺒﯿﺎﺋﮯ ﮐﺮﺍﻡؑ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﺍٓﺩﻡ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﻀﺮﺕ ﺩﺍﺋﻮﺩؑ ﮨﯽ ﻭﮦ ﭘﯿﻐﻤﺒﺮ ﮨﯿﮟ، ﺟﻨﮩﯿﮟ ﻗﺮﺍٓﻥِ ﮐﺮﯾﻢ ﻧﮯ ’’ ﺧﻠﯿﻔﮧ ‘‘ ﮐﮯ ﻟﻘﺐ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺍ۔ ﻗﺮﺍٓﻥِ ﮐﺮﯾﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﮨﮯ ’’ ﺍﮮ ﺩﺍﺋﻮﺩؑ ! ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ، ﺗﻢ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺣﻖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﮐﺮﻭ۔ ‘‘ ‏( ﺳﻮﺭﮦٔ ﺹ 26 : ‏)
ﺯﺑﻮﺭ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﮔﺌﯽ
ﻗﺮﺍٓﻥِ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﯽ ﺳﻮﺭﮦٔ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﮨﮯ ’’ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺑﻌﺾ ﭘﯿﻐﻤﺒﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺑﻌﺾ ﭘﺮ ﻓﻀﯿﻠﺖ ﺑﺨﺸﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﺍﺋﻮﺩؑ ﮐﻮ ﺯﺑﻮﺭ ﻋﻨﺎﯾﺖ ﮐﯽ۔ ‘‘ ﺳﻮﺭۃ ﺍﻟﻨﺴﺎﺀ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺷﺎﺩِ ﺑﺎﺭﯼ ﮨﮯ ’’ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺩﺍﺋﻮﺩؑ ﮐﻮ ﺯﺑﻮﺭ ﺑﮭﯽ ﻋﻨﺎﯾﺖ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ۔ ‘‘ ‏( ﺍٓﯾﺖ 163 ‏) ﺍﻣﺎﻡ ﺑﻐﻮﯼؒ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻔﺴﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯﮐﮧ ﺯﺑﻮﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﮨﮯ، ﺟﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﺩﺍﺋﻮﺩ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﭘﺮ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﻮ ﭘﭽﺎﺱ ﺳﻮﺭﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ، ﺟﻮ ﺩﻋﺎﺋﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺣﻤﺪ ﻭ ﺛﻨﺎﺀ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞ ﮨﯿﮟ۔ ﺗﺎﮨﻢ ﺍُﻥ ﻣﯿﮟ ﺣﻼﻝ ﻭ ﺣﺮﺍﻡ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﺍﺋﺾ ﻭ ﺣﺪﻭﺩ ﮐﺎ ﺑﯿﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺯﺑﻮﺭ ﮐﮯ ﻟﻐﻮﯼ ﻣﻌﻨﯽ ’’ ﭘﺎﺭﮮ ‘‘ ﯾﺎ ’’ ﭨﮑﮍﮮ ‘‘ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺩﺭﺍﺻﻞ، ﺯﺑﻮﺭ ﮐﮯ ﻧﺰﻭﻝ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﺗﻮﺭﺍﺕ ﮐﯽ ﺗﮑﻤﯿﻞ ﺗﮭﺎ، ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮔﻮﯾﺎ ﯾﮧ ﺗﻮﺭﺍﺕ ﮨﯽ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺣﺼّﮧ ﯾﺎ ﭨﮑﮍﺍ ﮨﮯ۔ ﺯﺑﻮﺭ، ﺍﻟﻠﮧ ﺗﺒﺎﺭﮎ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﺣﻤﺪ ﻭ ﺛﻨﺎﺀ ﺳﮯ ﻣﺰﯾّﻦ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﺩﺍﺋﻮﺩ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺩِﻝ ﻧﺸﯿﻦ ﺍٓﻭﺍﺯ ﺍﻭﺭ ﺳﺤﺮ ﺍﻧﮕﯿﺰ ﻟﺤﻦ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍٓﭖؑ ﺟﺐ ﺯﺑﻮﺭ ﮐﯽ ﺗﻼﻭﺕ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ، ﺗﻮ ﻭﺟﺪ ﺍٓﻓﺮﯾﻦ ﺗﻼﻭﺕ ﺳﮯ ﻣﺴﺤﻮﺭ ﮨﻮ ﮐﺮ ﭼﺮﻧﺪ، ﭘﺮﻧﺪ، ﺩﺭﺧﺖ، ﭘﮩﺎﮌ، ﺟﻦ ﻭ ﺍﻧﺲ، ﺩﺭﯾﺎ ﻭ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﯾﻌﻨﯽ ﺳﺐ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﺣﻤﺪ ﻭ ﺛﻨﺎﺀ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻮ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ۔ ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯ ﺍٓﺝ ﺗﮏ ’’ ﻟﺤﻦِ ﺩﺍﺋﻮﺩﯼ ‘‘ ﺿﺮﺏ ﺍﻟﻤﺜﻞ ﮨﮯ۔ ﻣﺴﻨﺪِ ﺍﺣﻤﺪ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮﮨﺮﯾﺮﮦؓ ﺳﮯ ﻣﺮﻭﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝِ ﺍﮐﺮﻡﷺ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ’’ ﺩﺍﺋﻮﺩ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﭘﺮ ﻗﺮﺍٔﺕ ﮐﻮ ﺍٓﺳﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﮨﻠﮑﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﺮ ﺯﯾﻦ ﮐﺴﻨﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﮧ ﺯﯾﻦ ﮐَﺴﯽ ﺟﺎﺗﯽ، ﺍٓﭖؑ ﭘﻮﺭﯼ ﺯﺑﻮﺭ ﺗﻼﻭﺕ ﮐﺮ ﭼُﮑﮯ ﮨﻮﺗﮯ۔ ‘‘ ﺣﻀﻮﺭ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢﷺ ﺟﺐ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﻣﻮﺳﯽٰ ﺍﺷﻌﺮﯼؓ ﮐﯽ ﺗﻼﻭﺕِ ﻗﺮﺍٓﻥ ﺳُﻨﺘﮯ، ﺗﻮ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ’’ ﺍﺑﻮ ﻣﻮﺳﯽٰ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ’’ ﻟﺤﻦِ ﺩﺍﺋﻮﺩﯼ ‘‘ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ۔ ‘‘
ﻗﺮﺍٓﻥِ ﭘﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﺫﮐﺮ
ﻗﺮﺍٓﻥِ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﯽ 9 ﺳﻮﺭﮦٔ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ، ﺳﻮﺭۃ ﺍﻟﺒﻘﺮﮦ، ﺳﻮﺭۃ ﺍﻟﻨﺴﺎﺀ، ﺳﻮﺭﮦٔ ﺍﻟﻤﺎﺋﺪﮦ، ﺳﻮﺭﮦٔ ﺍﻻﻧﻌﺎﻡ، ﺳﻮﺭﮦٔ ﺍﻻﺳﺮﺍﺀ، ﺳﻮﺭۃ ﺍﻻﻧﺒﯿﺎﺀ، ﺳﻮﺭۃ ﺍﻟﻨﻤﻞ، ﺳﻮﺭﮦٔ ﺳﺒﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﺭﮦٔ ﺹ ﻣﯿﮟ 16 ﻣﻘﺎﻣﺎﺕ ﭘﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﺩﺍﺋﻮﺩؑ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮨﮯ۔ ﺑﻌﺾ ﺳﻮﺭﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻔﺼﯿﻞ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺾ ﻣﯿﮟ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺣﺎﻻﺕ ﻭ ﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺍُﻥ ﭘﺮ ﻧﺎﺯﻝ ﮐﺮﺩﮦ ﮐﺘﺎﺏ، ﺯﺑﻮﺭ ﮐﺎ ﺗﯿﻦ ﺳﻮﺭﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺫﮐﺮ ﮨﮯ۔
ﭘﮩﺎﮌﻭﮞ، ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﺗﺴﺒﯿﺢ
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺳﻮﺭۃ ﺍﻻﻧﺒﯿﺎﺀ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ’’ ﮨﻢ ﻧﮯ ﭘﮩﺎﮌﻭﮞ ﮐﻮ ﺩﺍﺋﻮﺩؑ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺴﺨّﺮ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﺴﺒﯿﺢ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻣﺴﺨّﺮ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ‘‘ ‏( ﺍٓﯾﺖ :79 ‏) ﻧﯿﺰ، ﺳﻮﺭﮦٔ ﺹ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﮨﮯ ’’ ﮨﻢ ﻧﮯ ﭘﮩﺎﮌﻭﮞ ﮐﻮ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺯﯾﺮِ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺻﺒﺢ ﻭ ﺷﺎﻡ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺗﺴﺒﯿﺢ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﻧﺪﻭﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮐﮧ ﺟﻤﻊ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺐ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﻓﺮﻣﺎﮞ ﺑﺮﺩﺍﺭ ﺗﮭﮯ۔ ‘‘ ‏( ﺍٓﯾﺖ :19 ‏) ﻣﻔﺴّﺮﯾﻦ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ، ﺍﻟﻠﮧ ﺗﺒﺎﺭﮎ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﭘﮩﺎﮌﻭﮞ، ﭘﺮﻧﺪﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺣﻀﺮﺕ ﺩﺍﺋﻮﺩؑ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮐﺮﯾﮟ، ﺗﻮ ﻭﮦ ﺳﺐ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﮐﻠﻤﺎﺕ ﮐﻮ ﺩُﮨﺮﺍﺋﯿﮟ۔ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺯﺑﻮﺭ ﮐﯽ ﺗﻼﻭﺕ ﮐﺮﺗﮯ، ﺗﻮ ﭘﺮﻧﺪﮮ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﭨﮭﮩﺮ ﮐﺮ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺫﮐﺮِ ﺍﻟٰﮩﯽ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﭘﮩﺎﮌ، ﺷﺠﺮ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﺮ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﺗﺴﺒﯿﺢ ﮐﺮﺗﮯ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺭﺏّ ﺍﻟﻌﺰّﺕ ﻧﮯ ﭘﺘﮭﺮﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺭﮐﮭﯽ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﺍﻟﮓ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﺷﻌﻮﺭ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺳﻮﺭﮦٔ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ’’ ﺳﺎﺗﻮﮞ ﺍٓﺳﻤﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺯﻣﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺍُﻥ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺳﺐ ﺍُﺳﯽ ﮐﯽ ﺗﺴﺒﯿﺢ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﯾﺴﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﻧﮩﯿﮟ، ﺟﻮ ﺍُﺳﮯ ﭘﺎﮐﯿﺰﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﯾﺎﺩ ﻧﮧ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮ۔ ﮨﺎﮞ ! ﯾﮧ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺴﺒﯿﺢ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﮯ۔ ‘‘ ‏( ﺍٓﯾﺖ :44 ‏)
ﻟﻮﮨﺎ، ﻣﻮﻡ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﺎ
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﺒﺎﺭﮎ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺩﺍﺋﻮﺩؑ ﮐﻮ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻣﻌﺠﺰﮦ ﯾﮧ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻟﻮﮨﮯ ﮐﻮ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻮﻡ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻧﺮﻡ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﯾﺎ ۔ ﺍﺭﺷﺎﺩِ ﺑﺎﺭﯼ ﮨﮯ ’’ ﺍﻭﺭ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻢ ﻧﮯ ﻟﻮﮨﮯ ﮐﻮ ﻧﺮﻡ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﮐﺸﺎﺩﮦ ﺯِﺭﮨﯿﮟ ﺑﻨﺎﺋﻮ ﺍﻭﺭ ﮐﮍﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻧﺪﺍﺯﮮ ﺳﮯ ﺟﻮﮌﻭ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﮏ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﻭ۔ ‘‘ ‏( ﺳﻮﺭﮦٔ ﺳﺒﺎ 10,11 : ‏) ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺴﻦ ﺑﺼﺮﯼؒ، ﻗﺘﺎﺩﮦؒ ﺍﻭﺭ ﺍﻋﻤﺶؒ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻟﻮﮨﮯ ﮐﻮ ﻧﺮﻡ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ، ﺣﺘﯽٰ ﮐﮧ ﺑﻐﯿﺮ ﺍٓﮒ ﻭ ﺑﮭﭩّﯽ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍُﺳﮯ ﮨﺮ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﻣﻮﮌ ﻟﯿﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍُﻧﮭﯿﮟ ﻟﻮﮨﺎ ﻣﻮﮌﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﺘﮭﻮﮌﮮ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﭘﮍﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺍﻭﺯﺍﺭ ﮐﯽ، ﻭﮦ ﻣﻮﻡ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﮐﮍﯾﺎﮞ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻗﺘﺎﺩﮦؒ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺷﺨﺺ، ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮍﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺯِﺭﮦ ﺑﻨﺎﺋﯽ، ﻭﮦ ﺣﻀﺮﺕ ﺩﺍﺋﻮﺩؑ ﮨﯿﮟ۔ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺻﺎﻑ ﭼﺎﺩﺭ ﮐﯽ ﺯِﺭﮨﯿﮟ ﺑﻨﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﺑﻦِ ﺷﻮﺯﺏؒ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍٓﭖؑ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺯِﺭﮦ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ ﮐﺮﺗﮯ، ﺟﻮ ﭼﮭﮯ ﺳﻮ ﺩﺭﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮨﻮﺗﯽ۔
ﺯِﺭﮦ ﺳﺎﺯﯼ ﮐﯽ ﺣﮑﻤﺖ
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ’’ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍُﺳﮯ ‏( ﺩﺍﺋﻮﺩؑ ﮐﻮ ‏) ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﯿﮯ ﻟﺒﺎﺱ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﮨﻨﺮ ﺳِﮑﮭﺎﯾﺎ ﺗﺎﮐﮧ ﻟﮍﺍﺋﯽ ﮐﮯ ﺿﺮﺭ ﺳﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺑﭽﺎﺋﻮ ﮨﻮ۔ )‘‘ ﺳﻮﺭۃ ﺍﻻﻧﺒﯿﺎﺀ :80 ‏) ﺗﻔﺴﯿﺮ ﺍﺑﻦِ ﮐﺜﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﻓﻆ ﺍﺑﻦِ ﻋﺴﺎﮐﺮؒ ﮐﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺩﺍﺋﻮﺩ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻼﻓﺖ ﮐﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯿﺲ ﺑﺪﻝ ﮐﺮ ﺑﺎﺯﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﮐﮧ ’’ ﺩﺍﺋﻮﺩ ﮐﯿﺴﮯ ﺍٓﺩﻣﯽ ﮨﯿﮟ؟ ‘‘ ﭼﻮﮞ ﮐﮧ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﻋﺪﻝ ﻭ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﻋﺎﻡ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮒ ﺍٓﺭﺍﻡ ﻭ ﻋﯿﺶ ﺳﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ، ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﺳﮯ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ، ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍٓﭖؑ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﺗﮯ، ﻭﮦ ﺣﻀﺮﺕ ﺩﺍﺋﻮﺩ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﮨﯽ ﮐﺮﺗﺎ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍٓﭖؑ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﮐﻮ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯿﺠﺎ، ﺗﻮ ﺍٓﭖؑ ﻧﮯ ﺣﺴﺐِ ﻋﺎﺩﺕ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯽ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ۔ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ’’ ﺩﺍﺋﻮﺩ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﮯ ﺍٓﺩﻣﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻔﺲ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﻋﯿّﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﯿﮟ، ﻣﮕﺮ ﺍُﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻋﺎﺩﺕ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﯽ، ﺗﻮ ﮐﺎﻣﻞ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﻮﺗﮯ۔ ‘‘ ﺩﺍﺋﻮﺩ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ’’ ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﻋﺎﺩﺕ ﮨﮯ؟ ‘‘ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ’’ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮨﻞ ﻭ ﻋﯿﺎﻝ ﮐﮯ ﺧﺮﭺ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ‘‘ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺳُﻦ ﮐﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﺩﺍﺋﻮﺩ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﻧﮯ ﺩُﻋﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ’’ ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ! ﻣﺠﮭﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺎﻡ ﺳِﮑﮭﺎ ﺩﮮ، ﺟﻮ ﻣَﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﮐﺮﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺍُﺟﺮﺕ ﺳﮯ ﺍﮨﻞ ﻭ ﻋﯿﺎﻝ ﮐﮯ ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﭘﻮﺭﮮ ﮐﺮﺳﮑﻮﮞ۔ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﺍﻭﺭ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﮐﺎﻡ ﺑﻼ ﻣﻌﺎﻭﺿﮧ ﮐﺮﻭﮞ۔ ‘‘ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﺩُﻋﺎ ﻗﺒﻮﻝ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍُﻧﮭﯿﮟ ﺯِﺭﮦ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﮨﻨﺮ ﺳِﮑﮭﺎ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ ‏( ﻣﻌﺎﺭﻑ ﺍﻟﻘﺮﺍٓﻥ، ﺝ 7 ، ﺹ 262 ‏)
ﻋﺒﺎﺩﺕ ﻭ ﺍﻃﺎﻋﺖ
ﻗﺮﺍٓﻥِ ﮐﺮﯾﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﮨﮯ ’’ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺑﻨﺪﮮ ﺩﺍﺋﻮﺩؑ ﮐﻮ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﻭ، ﺟﻮ ﺻﺎﺣﺐ ﻗﻮّﺕ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺷﮏ ﻭﮦ ﺭﺟﻮﻉ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﮭﮯ۔ ‘‘ ‏( ﺳﻮﺭﮦٔ ﺹ :17 ‏) ﻣﻔﺴّﺮﯾﻦ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺍٓﯾﺖِ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺩﺍﺋﻮﺩؑ ﮐﮯ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ۔ ﺣﺪﯾﺚِ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧؐ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ’’ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻧﻤﺎﺯ، ﺩﺍﺋﻮﺩ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﻭﺭ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﺭﻭﺯﮮ، ﺩﺍﺋﻮﺩ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﮐﮯ ﺭﻭﺯﮮ ﮨﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﻧﺼﻒ ﺭﺍﺕ ﺗﮏ ﺳﻮﺗﮯ، ﭘﮭﺮ ﺍُﭨﮫ ﮐﺮ ﺭﺍﺕ ﮐﺎ ﺗﮩﺎﺋﯽ ﺣﺼّﮧ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﮮ ﺭﮨﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺍٓﺧﺮﯼ ﺣﺼّﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺭﻭﺯﮦ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻧﺎﻏﮧ ﮐﺮﺗﮯ۔ ﺟﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﺍﺭ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﮯ۔ ‘‘ ‏( ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﻭﻣﺴﻠﻢ ‏) ﺣﻀﺮﺕ ﺩﺍﺋﻮﺩؑ ﺍﭘﻨﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻘﺘﺪﺍ ﻭ ﭘﯿﺸﻮﺍ ﺗﮭﮯ، ﺍٓﭖؑ ﻋﺪﻝ ﻭ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﺍﻭﺭ ﺯﮨﺪ ﻭ ﺗﻘﻮﯼٰ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺗﮭﮯ۔ﺍٓﭖؑ ﺑﮯ ﻣﺜﺎﻝ ﺧﻄﯿﺐ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻄﺒﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺣﻤﺪ ﻭﺛﻨﺎ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ’’ ﺍَﻣّﺎﺑﻌﺪ ‘‘ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍُﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﯽ ﮐﮩﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ۔ ‏( ﻣﻌﺎﺭﻑ ﺍﻟﻘﺮﺍٓﻥ ‏)
ﺳﻠﻄﻨﺖ ﻭ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﺖ
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺩﺍﺋﻮﺩؑ ﮐﻮ ﻧﺒﻮّﺕ ﺍﻭﺭ ﺭﺳﺎﻟﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ، ﺣﮑﻮﻣﺖ ﺑﮭﯽ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ﺍٓﭖؑ ﻓﻦِ ﺧﻄﺎﺑﺖ ﮐﮯ ﻣﺎﮨﺮ ﺗﮭﮯ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺍٓﻭﺍﺯ ﺑﮭﯽ ﺧُﻮﺏ ﺻﻮﺭﺕ ﭘﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ، ﻟﮩٰﺬﺍ، ﺩﺭﺱ ﻭ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﺍﻭﺭ ﻭﻋﻆ ﻭ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺟﺬﺑﮧٔ ﺟﮩﺎﺩ ﺍُﺑﮭﺎﺭﺍ ﺍﻭﺭ ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﮐﻔﺎﺭ ﻭ ﻣﺸﺮﮐﯿﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﻨﮓ ﭘﺮ ﺍٓﻣﺎﺩﮦ ﮐﯿﺎ۔ ﻗﺮﺍٓﻥِ ﮐﺮﯾﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺷﺎﺩِ ﺑﺎﺭﯼ ﮨﮯ ’’ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍُﺱ ‏( ﺩﺍﺋﻮﺩؑ ‏) ﮐﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﻮ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍُﻧﮭﯿﮟ ﺣﮑﻤﺖ، ﻧﺒﻮّﺕ ﺍﻭﺭ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﮐﯽ ﻗﻮّﺕ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ۔ ‘‘ ‏( ﺳﻮﺭﮦٔ ﺹ :20 ‏) ﺑﮩﺖ ﺗﮭﻮﮌﮮ ﻋﺮﺻﮯ ﻣﯿﮟ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ، ﻋﺮﺍﻕ، ﺷﺎﻡ، ﺩﻣﺸﻖ، ﺷﺮﻕِ ﺍﺭﺩﻥ ﺍﻭﺭ ﺧﻠﯿﺞِ ﻋﻘﺒﮧ ﺳﮯ ﻓﺮﺍﺕ ﺗﮏ ﺟﺰﯾﺮۃ ﺍﻟﻌﺮﺏ ﮐﮯ ﺑﯿﺶ ﺗﺮ ﻋﻼﻗﮯ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺯﯾﺮِ ﻧﮕﯿﮟ ﺍٓ ﭼُﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻥ ﺑﻨﺪﺭ ﺍﻭﺭ ﺧﻨﺰﯾﺮ ﺑﻦ ﮔﺌﮯ
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﺒﺎﺭﮎ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ’’ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺍُﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺧُﻮﺏ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﻮ، ﺟﻮ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﻔﺘﮯ ﮐﮯ ﺩﻥ ‏( ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ‏) ﻣﯿﮟ ﺣﺪ ﺳﮯ ﺗﺠﺎﻭﺯ ﮐﺮ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺗﻮ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍُﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ’’ ﺫﻟﯿﻞ ﻭ ﺧﻮﺍﺭ ﺑﻨﺪﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﻮ۔ ‘‘ ‏( ﺳﻮﺭۃ ﺍﻟﺒﻘﺮﮦ :65 ‏) ﻣﻔﺴّﺮﯾﻦ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ، ﺻُﻮﺭﺗﯿﮟ ﻣﺴﺦ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺩﺍﺋﻮﺩؑ ﮐﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺶ ﺍٓﯾﺎ۔ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻔﺘﮯ ﮐﺎ ﺩﻥ ﺻﺮﻑ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﺩﻥ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﮯ ﺷﮑﺎﺭ ﺳﻤﯿﺖ ﮨﺮ ﺩﻧﯿﺎﻭﯼ ﮐﺎﻡ ﻣﻤﻨﻮﻉ ﺗﮭﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﺍٓﺑﺎﺩ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﮯ ﺷﻮﻗﯿﻦ ﺍُﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﮑﻢ ﮐﯽ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻧﯽ ﮐﯽ، ﺟﺲ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﺷﮑﻠﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺴﺦ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺳﺐ ﻟﻮﮒ ﻣﺮ ﮔﺌﮯ۔ ﺗﻔﺴﯿﺮِ ﻗﺮﻃﺒﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮩﻮﺩ ﻧﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺣﯿﻠﮯ ﺑﮩﺎﻧﮯ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﭽﮭﻠﯿﺎﮞ ﭘﮑﮍﯾﮟ، ﭘﮭﺮ ﻋﺎﻡ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺷﮑﺎﺭ ﮐﮭﯿﻠﻨﮯ ﻟﮕﮯ، ﺗﻮ ﺍُﻥ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﺟﻤﺎﻋﺘﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﺍﯾﮏ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﻭ ﺻﻠﺤﺎ ﺗﮭﮯ،ﺟﻮ ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﺭﻭﮐﺘﮯ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻥ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞ ﺗﮭﯽ۔ ﭘﮭﺮ ﺑﺴﺘﯽ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﺩﻭ ﺣﺼّﮯ ﮐﺮ ﻟﯿﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﻤﯽ ﺗﻌﻠﻘﺎﺕ ﻣﻨﻘﻄﻊ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺟﺲ ﺣﺼّﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻥ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﻭﮨﺎﮞ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺳﻨّﺎﭨﺎ ﮨﮯ۔ ﺟﺐ ﻭﮨﺎﮞ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮔﯿﺎ، ﺗﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺻُﻮﺭﺗﯿﮟ ﻣﺴﺦ ﮨﻮ ﭼُﮑﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻗﺘﺎﺩﮦؒ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﻥ، ﺑﻨﺪﺭ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﮌﮬﮯ، ﺧﻨﺰﯾﺮ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﮯ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ، ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺷﺘﮯ ﺩﺍﺭ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻧﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺍٓ ﮐﺮ ﺭﻭﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﻣﻤﺴﻮﺥ ﻗﻮﻡ ﮐﯽ ﻧﺴﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻠﺘﯽ
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩؓ ﺳﮯ ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﻘﻮﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﻌﺾ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻨﺪﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺧﻨﺰﯾﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍٓﻧﺤﻀﺮﺕؐ ﺳﮯ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ’’ ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﻭﮨﯽ ﻣﺴﺦ ﺷﺪﮦ ﺷﮑﻠﻮﮞ ﻭﺍﻟﮯ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮨﯿﮟ؟ ‘‘ ﺍٓﭖﷺ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ’’ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﻗﻮﻡ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺦ ﺻﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﻋﺬﺍﺏ ﻧﺎﺯﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺗﻮ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﻧﺴﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻠﺘﯽ ‏( ﺑﻠﮑﮧ ﭼﻨﺪ ﺭﻭﺯ ﻣﯿﮟ ﮨﻼﮎ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ‏) ۔ ﺑﻨﺪﺭ ﺍﻭﺭ ﺧﻨﺰﯾﺮ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺳﮯ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﮯ۔ ‘‘ ‏( ﻣﻌﺎﺭﻑ ﺍﻟﻘﺮﺍٓﻥ، ﺝ ﺍﻭّﻝ، ﺹ 243 ‏)
ﺣﻀﺮﺕ ﺩﺍﺋﻮﺩؑ ﮐﺎ ﻭﺻﺎﻝ
ﺣﻀﺮﺕ ﺩﺍﺋﻮﺩؑ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋُﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﻭﻓﺎﺕ ﭘﺎﺋﯽ۔ ﺍٓﭖؑ ﻧﮯ ﻭﺳﯿﻊ ﻭ ﻋﺮﯾﺾ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﭘﺮ ﭼﺎﻟﯿﺲ ﺳﺎﻝ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﯽ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻦِ ﻋﺒﺎﺱؓ ﺳﮯ ﻣﺮﻭﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺩﺍﺋﻮﺩؑ ﮨﻔﺘﮯ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﻭﻓﺎﺕ ﭘﺎ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﻧﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﭨﮑﮍﯾﺎﮞ ﺍَﺑﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍُﻥ ﭘﺮ ﺳﺎﯾﮧ ﻓﮕﻦ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍٓﭖؑ ﮐﮯ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﯾﮏ ﺻﺮﻑ ﻋﻠﻤﺎﺋﮯ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﭼﺎﻟﯿﺲ ﮨﺰﺍﺭ ﺗﮭﯽ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﻋﻮﺍﻡ ﺍﻟﻨّﺎﺱ ﮐﯽ ﮐﺜﯿﺮ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺗﮭﯽ۔ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﺳﯽٰ ؑﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﮨﺎﺭﻭﻥؑ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺭﻧﺞ ﻭ ﻏﻢ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﭘﺮ ﻧﮧ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔ ‏( ﺍﺑﻦِ ﮐﺜﯿﺮ ‏

ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﮯ ﻧﺒﯽ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﮨﺎﺭﻭﻥؑ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍٓﭖؑ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﻧﻮ ﺳﻮ ﻗﺒﻞِ ﻣﺴﯿﺢ ﺍُﺭﺩﻥ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ’’ ﺟِﻠﻌﺎﺩ ‘‘ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ۔ ﻗﺮﺍٓﻥِ ﮐﺮﯾﻢ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺘﻨﺪ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱؑ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺣﺎﻻﺕ ﺗﻔﺼﯿﻞ ﺳﮯ ﻣﺬﮐﻮﺭ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﻗﺮﺍٓﻥِ ﮐﺮﯾﻢ ﻣﯿﮟ ﺍٓﭖؑ ﮐﺎ ﺫﮐﺮِ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺩﻭ ﻣﻘﺎﻣﺎﺕ ﭘﺮ ﺍٓﯾﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺭﮦٔ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﮩﺎﮞ ﺩﯾﮕﺮ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﻋﻠﯿﮩﻢ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍٓﭖؑ ﮐﺎ ﺍﺳﻢِ ﮔﺮﺍﻣﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﺬﮐﻮﺭ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﺍ، ﺳﻮﺭﮦٔ ﺻﺎﻓﺎﺕ ﻣﯿﮟ، ﺟﮩﺎﮞ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺍﺧﺘﺼﺎﺭ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍٓﭖؑ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﻭ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﺍﻭﺭ ﻭﻋﻆ ﻭ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮨﮯ۔ ﺳﻮﺭﮦٔ ﺻﺎﻓﺎﺕ ﮐﯽ ﺍٓﯾﺖ 123 ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﮨﮯ ’’ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﯿﺎﺱؑ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﻐﻤﺒﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺗﮭﮯ۔ ‘‘ ﻗﺮﺍٓﻥِ ﮐﺮﯾﻢ ﻣﯿﮟ ﺍٓﭖؑ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺍﻟﯿﺎﺱ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺍﻧﺠﯿﻞ ﯾﻮﺣﻨﺎ ﻣﯿﮟ ﺍٓﭖؑ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ’’ ﺍﯾﻠﯿﺎ ﻧﺒﯽ ‘‘ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﻋﻠّﺎﻣﮧ ﺍﺑﻦِ ﮐﺜﯿﺮؒ ﻧﮯ ﺍٓﭖؑ ﮐﺎ ﻧﺴﺐ ﻧﺎﻣﮧ ﯾﻮﮞ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ، ’’ ﺍﻟﯿﺎﺱؑ ﺑﻦ ﯾﺎﺳﯿﻦ ﺑﻦ ﻓﺨﺎﺹ ﺑﻦ ﯾﻌﺰﺍﺯ ﺑﻦ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﯾﺎ ﺍﻟﯿﺎﺱؑ ﺑﻦ ﺍﻟﻌﺎﺯ ﺑﻦ ﺍﻟﯿﻌﺰﺍﺯ ﺑﻦ ﮨﺎﺭﻭﻥ ۔ؑ ‘‘

ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱؑ ﮐﯽ ﺑﻌﺜﺖ

ﻗﺮﺍٓﻥ ﻭ ﺣﺪﯾﺚ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻠﺘﺎ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﮐﺐ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎﮞ ﻣﺒﻌﻮﺙ ﮨﻮﺋﮯ؟ ﻟﯿﮑﻦ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﻣﺘﻔّﻖ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍٓﭖؑ، ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺰﻗﯿﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺴﻊ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺒﻌﻮﺙ ﮨﻮﺋﮯ۔ ﯾﮧ ﻭﮦ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺗﮭﺎ، ﺟﺐ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﺩﻭ ﺣﺼّﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﭧ ﭼُﮑﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﯾﮏ ﺣﺼّﮧ ﯾﮩﻮﺩﺍ ﯾﺎ ﯾﮩﻮﺩﯾﮧ ﮐﮩﻼﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﺮﮐﺰ، ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪِﺱ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺣﺼّﮧ، ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﮩﻼﺗﺎ ﺗﮭﺎ، ﺟﺲ ﮐﺎ ﭘﺎﯾﮧٔ ﺗﺨﺖ ﺳﺎﻣﺮﮦ ‏( ﻣﻮﺟﻮﺩﮦ ﻧﺎﺑﻠﺲ ‏) ﺗﮭﺎ۔ ﺍُﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺣﮑﻢ ﺭﺍﮞ ﺗﮭﺎ، ﺍُﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺑﺎﺋﺒﻞ ﻣﯿﮟ ’’ ﺍﺧﯽ ﺍﺏ ‘‘ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺑﯽ ﺗﻮﺍﺭﯾﺦ ﻭ ﺗﻔﺎﺳﯿﺮ ﻣﯿﮟ ’’ ﺍﺟﺐ ﯾﺎ ﺍﺧﺐ ‘‘ ﻣﺬﮐﻮﺭ ﮨﮯ۔ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ، ﺍﯾﺰﺑﻞ، ’’ ﺑﻌﻞ ‘‘ ﻧﺎﻣﯽ ﺑُﺖ ﮐﯽ ﭘﺮﺳﺘﺎﺭ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺑﻌﻞ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﯼ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮔﺎﮦ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﻮ ﺑُﺖ ﭘﺮﺳﺘﯽ ﮐﯽ ﺭﺍﮦ ﭘﺮ ﻟﮕﺎ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺣﮑﻢ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺧﻄّﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺗﻮﺣﯿﺪ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺩﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺑُﺖ ﭘﺮﺳﺘﯽ ﺳﮯ ﺭﻭﮐﯿﮟ۔ ‏( ﺗﻔﺴﯿﺮ ﺍﺑﻦِ ﺟﺮﯾﺮ، ﺝ 23 ، ﺹ 53 ‏) ﻣﻮٔﺭﺧﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﻣﻔﺴﺮّﯾﻦ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﻣﺘﻔّﻖ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﮐﻮ ﻣُﻠﮏِ ﺷﺎﻡ ﮐﮯ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﻮﺣﯿﺪ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﺎﮐﮧ ﮐﻔﺮ ﻭ ﺷﺮﮎ ﺍﻭﺭ ﺑُﺖ ﭘﺮﺳﺘﯽ ﻣﯿﮟ ﻏﺮﻕ ﻗﻮﻡ ﮐﻮ ﺭﺍﮦِ ﺭﺍﺳﺖ ﭘﺮ ﻻﯾﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺍﯾﮏ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻟﮯ ﺍٓﺋﯿﮟ۔
ﻗﻮﻡِ ﺍﻟﯿﺎﺱؑ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺩﯾﻮﺗﺎ

ﺑﻌﻞ ﺑُﺖ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺩﯾﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑُﺖ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻗﺪ 20 ﮔﺰ ﺗﮭﺎ، ﭼﺎﺭ ﻣﻨﮧ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﺭ ﺳﻮ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﭘﺮ ﻣﺎﻣﻮﺭ ﺗﮭﮯ۔ ‏( ﺭﻭﺡ ﺍﻟﻤﻌﺎﻓﯽ ﺟﻠﺪ 23 ، ﺹ 627 ‏) ﯾﻤﻦ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﻡ ﮐﮯ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﺎ ﭘﺴﻨﺪﯾﺪﮦ ﺩﯾﻮﺗﺎ ﯾﮩﯽ ﺗﮭﺎ، ﺟﺲ ﮐﯽ ﺳﯿﮑﮍﻭﮞ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﻮﺟﺎ ﮐﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﻌﻞ ﮐﮯ ﭘﺠﺎﺭﯼ ،ﺣﻀﺮﺕ ﯾﻮﺷﻊ ؑ ﺑﻦ ﻧﻮﻥ ﮐﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖؑ ﻧﮯ ﺷﺎﻡ ﮐﯽ ﻓﺘﺢ ﮐﮯ ﺩَﻭﺭﺍﻥ ﺍُﻥ ﺳﮯ ﺟﻨﮓ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﻣﮩﯿﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍُﺱ ﺩﯾﻮﺗﺎ ﮐﮯ ﮔﺮﺩ ﻣﯿﻠﮯ ﻟﮕﺘﮯ، ﻣﻨّﺘﯿﮟ ﻣﺎﻧﯽ ﺟﺎﺗﯿﮟ، ﺳﻮﻧﮯ ﭼﺎﻧﺪﯼ ﮐﮯ ﻧﺬﺭﺍﻧﮯ ﭼﮍﮬﺎﺋﮯ ﺟﺎﺗﮯ، ﻃﺮﺡ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﺧﻮﺵ ﺑُﻮﺋﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﮬﻮﻧﯽ ﺩﯼ ﺟﺎﺗﯽ۔ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﺹ ﺧﺎﺹ ﻣﻮﺍﻗﻊ ﭘﺮ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﮭﯿﻨﭧ ﺑﮭﯽ ﭼﮍﮬﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻋﺒﺮﺍﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﻣﯽ ﺯﺑﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﻌﻞ ﮐﮯ ﻣﻌﻨﯽ ﺍٓﻗﺎ، ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ، ﻣﺎﻟﮏ ﺍﻭﺭ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯ ﻋﺮﺏ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺑﻌﻞ ﮐﮩﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺑﻌﺾ ﻣﻮٔﺭﺧﯿﻦ ﻧﮯ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﺠﺎﺯ ﮐﺎ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺑُﺖ، ﮨﺒﻞ ﺑﮭﯽ ﺑﻌﻞ ﮨﯽ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺷﮑﻞ ﺗﮭﺎ۔ﻗﺮﺍٓﻥِ ﮐﺮﯾﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺷﺎﺩِ ﺑﺎﺭﯼ ﮨﮯ ’’ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﯿﺎﺱؑ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﻐﻤﺒﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺗﮭﮯ، ﺟﺐ ﺍُﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﻮﻡ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ’’ ﺗﻢ ﮈﺭﺗﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ، ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺑﻌﻞ ﮐﻮ ﭘﮑﺎﺭﺗﮯ ‏( ﺍﻭﺭ ﺍُﺳﮯ ﭘﻮﺟﺘﮯ ﮨﻮ ‏) ﺍﻭﺭ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮ۔ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﺟﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﮔﻠﮯ ﺑﺎﭖ، ﺩﺍﺩﺍ ﮐﺎ ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ ﮨﮯ ‘‘ ، ﺗﻮ ﺍُﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍُﻥ ﮐﻮ ﺟﮭﭩﻼ ﺩﯾﺎ۔ ﺳﻮ، ﻭﮦ ﺩﻭﺯﺥ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮐﯿﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔ ﮨﺎﮞ ! ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺧﺎﺹ ﺑﻨﺪﮮ ﻣﺒﺘﻼﺋﮯ ﻋﺬﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ‏( ﺍﻟﯿﺎﺱؑ ‏) ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮐﮭﺎ۔ ﺍِﻝ ﯾﺎﺳﯿﻦ ‏( ﺍﻟﯿﺎﺱؑ ‏) ﭘﺮ ﺳﻼﻡ ﮨﻮ۔ ﺑﻼﺷﺒﮧ ﮨﻢ ﻧﯿﮑﻮ ﮐﺎﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﺑﺪﻟﮧ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺑﮯ ﺷﮏ ﻭﮦ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﻮﻣﻦ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺗﮭﮯ۔ ‘‘ ‏( ﺳﻮﺭﮦٔ ﺻﺎﻓﺎﺕ 132 ۔ 123 ‏)

ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱؑ ﮐﺎ ﻣﺮﮐﺰ

ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﻧﮯ ﻣُﻠﮏِ ﺷﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺷﮩﺮ ’’ ﺑﻌﻠﺒﮏ ‘‘ ‏( Baalbek ‏) ﮐﻮ ﺭُﺷﺪ ﻭ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﮐﺎ ﻣﺮﮐﺰ ﺑﻨﺎﯾﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﮍﯼ ﻭﺟﮧ ﯾﮧ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺑﻌﻞ ﺩﯾﻮﺗﺎ ﮐﺎ ﺑُﺖ ﺍﺳﯽ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑُﺖ ﭘﺮﺳﺘﯽ، ﺳﺘﺎﺭﮦ ﭘﺮﺳﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﻔﺮ ﻭ ﺷﺮﮎ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﻗﺪﯾﻢ ﻣﺮﮐﺰ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﺷﮩﺮ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺑﻌﻠﺒﮏ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﺑُﺖ، ﺑﻌﻞ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﺗﮭﺎ، ﭼﻨﺎﮞ ﭼﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻔﺮﺳﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﻭﻋﻆ ﻭ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﺎ ﺍٓﻏﺎﺯ ﮐﯿﺎ۔ﺍٓﺝ ﺑﻌﻠﺒﮏ ﻟﺒﻨﺎﻥ ﮐﺎ ﻗﺪﯾﻢ ﺗﺮﯾﻦ ﺷﮩﺮ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﮭﻨﮉﺭﺍﺕ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﻈﻤﺖ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﻥ ﻭ ﺷﻮﮐﺖ ﮐﮯ ﻣﻈﮩﺮ ﮨﯿﮟ۔ ﺳﻄﺢِ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﺳﮯ 1150 ﻣﯿﭩﺮ ﺑﻠﻨﺪ ﯾﮧ ﺷﮩﺮ ﻣﻠﮑﮧٔ ﺑﻠﻘﯿﺲ ﮐﻮ ﺑﮧ ﻃﻮﺭ ﺣﻖ ﻣَﮩﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﺎﮞ ﻗﺼﺮِ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔ ﯾﻮﻧﺎﻧﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ’’ ﺷﮩﺮِ ﺍٓﻓﺘﺎﺏ ‘‘ ﯾﺎ ’’ ﻣﺪﯾﻨۃ ﺍﻟﺸﻤﺲ ‘‘ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺩﯾﺎ۔ﻧﯿﺰ، ﺭﻭﻣﯽ ﻋﮩﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﺑﮍﯼ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﻣﯽ ﺣﮑﻢ ﺭﺍﮞ، ﺍٓﮔﺴﭩﺲ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﻮﺍٓﺑﺎﺩﯼ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ 1154 ﻋﯿﺴﻮﯼ ‏( 549 ﮨﺠﺮﯼ ‏) ﻣﯿﮟ ﻧﻮﺭ ﺍﻟﺪّﯾﻦ ﺯﻧﮕﯽؒ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ۔ 1170 ﻋﯿﺴﻮﯼ ‏( 565 ﮨﺠﺮﯼ ‏) ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺯﻟﺰﻟﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺷﮩﺮ ﺗﺒﺎﮦ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ، ﻣﮕﺮ ﭘﮭﺮ ﻧﺌﮯ ﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﺍٓﺑﺎﺩ ﮨﻮﺍ۔ ﯾﮩﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱؑ ﮐﺎ ﻣﺰﺍﺭ ﮨﮯ۔
ﺗﻮﺣﯿﺪ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﺍﻭﺭ ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﺭﻭﯾّﮧ
ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﮐﮯ ﺣﺎﻻﺕ ﻭ ﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻗﻮﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﮐﺶ ﻣﮑﺶ ﮐﯽ ﺗﻔﺼﯿﻞ ’’ ﺗﻔﺴﯿﺮِ ﻣﻈﮩﺮﯼ ‘‘ ﻣﯿﮟ ﻋﻠّﺎﻣﮧ ﺑﻐﻮﯼؒ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﺮ ﺗﻔﺎﺳﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻭﮨﺐ ﺑﻦ ﻣﻨﺒﮧؒ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﮐﻌﺐ ﺍﻻﺣﺒﺎﺭؒ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ، ﺟﻮ ﺍﮐﺜﺮ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﺳﮯ ﻣﺎﺧﻮﺫ ﮨﮯ۔ ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﺳﮯ ﺧﻼﺻﮯ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺟﻮ ﻗﺪﺭِ ﻣﺸﺘﺮﮎ ﻧﮑﻠﺘﯽ ﮨﮯ، ﺍُﺳﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻣﻔﺘﯽ ﻣﺤﻤّﺪ ﺷﻔﯿﻊ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ ’’ ﻣﻌﺎﺭﻑ ﺍﻟﻘﺮﺍٓﻥ ‘‘ ﻣﯿﮟ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﻧﮯ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ’’ ﺍﺧﯽ ﺍﺏ ‘‘ ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺭﻋﺎﯾﺎ ﮐﻮ ﺑﻌﻞ ﻧﺎﻣﯽ ﺑُﺖ ﮐﯽ ﭘﺮﺳﺘﺶ ﺳﮯ ﺭﻭﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﺍُﻧﮭﯿﮟ ﺗﻮﺣﯿﺪ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯼ ﻣﮕﺮ ﺍﯾﮏ، ﺩﻭ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺍٓﭖؑ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﯽ، ﺑﻠﮑﮧ ﺍٓﭖؑ ﮐﻮ ﻃﺮﺡ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ، ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺍﺧﯽ ﺍﺏ ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ، ﺍﯾﺰﺑﻞ ﻧﮯ ﺍٓﭖؑ ﮐﻮ ﺷﮩﯿﺪ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﻨﺼﻮﺑﮯ ﺑﻨﺎﺋﮯ، ﺟﺲ ﭘﺮ ﺍٓﭖؑ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺩُﻭﺭ ﺍﻓﺘﺎﺩﮦ ﻏﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﭘﻨﺎﮦ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺻﮧٔ ﺩﺭﺍﺯ ﺗﮏ ﻭﮨﯿﮟ ﻣﻘﯿﻢ ﺭﮨﮯ۔ ﺑﻌﺪﺍﺯﺍﮞ، ﺍٓﭖؑ ﻧﮯ ﺩُﻋﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﮐﮧ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﻗﺤﻂ ﺳﺎﻟﯽ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﺎﮐﮧ ﺍﺱ ﻗﺤﻂ ﮐﻮ ﺩُﻭﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍٓﭖؑ ﺍُﻥ ﮐﻮ ﻣﻌﺠﺰﺍﺕ ﺩِﮐﮭﺎﺋﯿﮟ، ﺗﻮ ﺷﺎﯾﺪ ﻭﮦ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻟﮯ ﺍٓﺋﯿﮟ۔ ﭼﻨﺎﮞ ﭼﮧ ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﺷﺪﯾﺪ ﻗﺤﻂ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ، ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﺳﮯ ﺍﺧﯽ ﺍﺏ ﺳﮯ ﻣﻠﮯ ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ’’ ﯾﮧ ﻋﺬﺍﺏ، ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺑﺎﺯ ﺍٓ ﺟﺎﺋﻮ، ﺗﻮ ﯾﮧ ﻋﺬﺍﺏ ﺩُﻭﺭ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﭽّﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﻣﻮﻗﻊ ﮨﮯ۔ ﺗﻢ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮ ﮐﮧ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻣﻌﺒﻮﺩ، ﺑﻌﻞ ﮐﮯ ﺳﺎﮌﮬﮯ ﭼﺎﺭ ﺳﻮ ﻧﺒﯽ ﮨﯿﮟ، ﺗﻢ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍُﻥ ﺳﺐ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺟﻤﻊ ﮐﺮ ﻟﻮ۔ ﻭﮦ ﺑﻌﻞ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﻣَﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ، ﺟﺲ ﮐﯽ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﺍٓﺳﻤﺎﻧﯽ ﺍٓﮒ ﺍٓ ﮐﺮ ﺑﮭﺴﻢ ﮐﺮ ﺩﮮ ﮔﯽ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﺩﯾﻦ ﺳﭽّﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ ‘‘ ﺳﺐ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺗﺠﻮﯾﺰ ﮐﻮ ﺧﻮﺷﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﺎ۔ ﭼﻨﺎﮞ ﭼﮧ ﮐﻮﮦِ ﮐﺮﻣﻞ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﺮ ﯾﮧ ﺍﺟﺘﻤﺎﻉ ﮨﻮﺍ۔ ﺑﻌﻞ ﮐﮯ ﺟﮭﻮﭨﮯ ﻧﺒﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﭘﯿﺶ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺻﺒﺢ ﺳﮯ ﺩﻭﭘﮩﺮ ﺗﮏ ﺑﻌﻞ ﺳﮯ ﺍﻟﺘﺠﺎﺋﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﮯ، ﻣﮕﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﺍٓﯾﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﭘﯿﺶ ﮐﯽ۔ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍٓﺳﻤﺎﻥ ﺳﮯ ﺍٓﮒ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺋﯽ، ﺟﺲ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﮐﯽ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﺟﻼ ﮐﺮ ﺑﮭﺴﻢ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻟﻮﮒ ﺳﺠﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﮔﺮ ﮔﺌﮯ، ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺍُﻥ ﭘﺮ ﺣﻖ ﻭﺍﺿﺢ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺑﻌﻞ ﮐﮯ ﺟﮭﻮﭨﮯ ﻧﺒﯽ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﻣﺎﻧﮯ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ، ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ، ﺍﯾﺰﺑﻞ ﺑﮭﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ، ﺍﻟﭩﯽ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﺟﺎﻥ ﮐﯽ ﺩﺷﻤﻦ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱؑ ﮐﻮ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﻋﺰﺍﺋﻢ ﮐﺎ ﭘﺘﺎ ﭼﻼ، ﺗﻮ ﺍٓﭖؑ ﺭﻭﭘﻮﺵ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﻋﺮﺻﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣُﻠﮏ، ﯾﮩﻮﺩﯾﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯼ، ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺭﻓﺘﮧ ﺭﻓﺘﮧ ﺑﻌﻞ ﭘﺮﺳﺘﯽ ﮐﯽ ﻭﺑﺎ ﻭﮨﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﭘﮭﯿﻞ ﭼُﮑﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮧ ﺳُﻨﯽ ،ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﮐﯽ ﭘﯿﺶ ﮔﻮﺋﯽ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺗﺒﺎﮦ ﻭ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ ﭼﻨﺪ ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﺍٓﭖؑ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﺭﺍﮦِ ﺭﺍﺳﺖ ﭘﺮ ﻻﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ، ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺑﺪﺳﺘﻮﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺪﺍﻋﻤﺎﻟﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﺭﮨﺎ۔ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﺑﯿﺮﻭﻧﯽ ﺣﻤﻠﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﮩﻠﮏ ﺑﯿﻤﺎﺭﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺒﯽ ﮐﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﺑﻼ ﻟﯿﺎ۔ ‏( ﻣﻌﺎﺭﻑ ﺍﻟﻘﺮﺍﻥ، ﺟﻠﺪ 7 ، ﺹ 470 ‏)
ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﮐﯽ ﺭُﻭﭘﻮﺷﯽ
ﺣﻀﺮﺕ ﮐﻌﺐ ﺍﺣﺒﺎﺭؒ ﺳﮯ ﻣﻨﻘﻮﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱؑ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﻇﻠﻢ ﻭﺳﺘﻢ ﺳﮯ ﺗﻨﮓ ﺍٓﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﻏﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍُﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﺩﺱ ﺳﺎﻝ ﮐﺎ ﻋﺮﺻﮧ ﺭُﻭﭘﻮﺷﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﺴﺮ ﮐﯿﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍُﺱ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﮨﻼﮎ ﮐﺮﺩﯾﺎ، ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺗﺨﺖ ﻧﺸﯿﻦ ﮨﻮﺍ، ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱؑ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍُﺳﮯ ﺩﻋﻮﺕِ ﺗﻮﺣﯿﺪ ﺩﯼ، ﺟﺲ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺧﻠﻖِ ﻋﻈﯿﻢ ﺍُﻥ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻟﮯ ﺍٓﺋﯽ، ﺻﺮﻑ ﺩﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ، ﺟﻨﮭﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ ‏( ﺍﺑﻦِ ﮐﺜﯿﺮؒ ‏)
ﮐﯿﺎ ’’ ﺍﻟﯿﺎﺱؑ ‘‘ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺩﺭﯾﺲؑ ﮐﺎ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ؟
ﻣﻔﺴﺮّﯾﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﮔﺮﻭﮦ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ’’ ﺍﻟﯿﺎﺱ ‘‘ ، ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺩﺭﯾﺲ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﮨﯽ ﮐﺎ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺷﺨﺼﯿﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﻕ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺑﻌﺾ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱؑ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﻀﺮؑ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﻕ ﻧﮩﯿﮟ۔ ‏( ﺩﺭ ﻣﻨﺸﻮﺭ، ﺝ 5 ، ﺹ 285 ‏) ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺤﻘﻘّﯿﻦ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺍﻗﻮﺍﻝ ﮐﯽ ﺗﺮﺩﯾﺪ ﮐﯽ ﮨﮯ۔ ﻗﺮﺍٓﻥِ ﮐﺮﯾﻢ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺩﺭﯾﺲؑ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱ ؑﮐﺎ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺟﺪﺍ ﺟﺪﺍ ﺗﺬﮐﺮﮦ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﻨﺠﺎﺋﺶ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺍٓﺗﯽ، ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺣﺎﻓﻆ ﺍﺑﻦِ ﮐﺜﯿﺮؒ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻟﮓ، ﺍﻟﮓ ﻧﺒﯽ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ۔ ‏( ﺍﻟﺒﺪﺍﯾﮧ ﻭﺍﻟﻨﮩﺎﯾﮧ، ﺝ 1 ، ﺹ 339 ‏) ۔ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺩﺭﯾﺲ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ، ﺣﻀﺮﺕ ﻧﻮﺡ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻧﺒﻮّﺕ ﭘﺮ ﺳﺮﻓﺮﺍﺯ ﮨﻮﺋﮯ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﺍﯾﮏ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﻧﺒﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﺳﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺒﻌﻮﺙ ﮨﻮﺋﮯ، ﯾﻮﮞ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﯿﮑﮍﻭﮞ ﺳﺎﻝ ﮐﺎ ﻓﺎﺻﻠﮧ ﮨﮯ۔ ﭼﻨﺎﮞ ﭼﮧ ﻃﺒﺮﯼؒ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ، ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺴﻊ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﮐﮯ ﭼﭽﺎ ﺯﺍﺩ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﺑﻌﺜﺖ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺰﻗﯿﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮨﻮﺋﯽ۔
ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﻓﻘﯿﺮﯼ
ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﺍُﻥ ﺍﻧﺒﯿﺎﺋﮯ ﮐﺮﺍﻡؑ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﯿﮟ، ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺟﺎﮦ ﻭ ﺣﺸﻤﺖ، ﺩﻭﻟﺖ ﺛﺮﻭﺕ ﺳﮯ ﺑﮯ ﻧﯿﺎﺯ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺑﺴﺮ ﮐﯽ۔ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﻮ ﻣﮑﺎﻥ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﻓﮑﺮ ﺭﮨﯽ۔ ﻣﻼ ﺗﻮ ﮐﮭﺎ ﻟﯿﺎ، ﻧﮧ ﻣﻼ ﺗﻮ ﭘﺎﻧﯽ ﮨﯽ ﭘﺮ ﮔﺰﺍﺭﮦ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ۔ ﺩﻥ ﺑﮭﺮ ﺩﺭﺱ ﻭ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺭﮨﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﺷﺐ ﯾﺎﺩِ ﺍﻟﮩٰﯽ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺍﺭﺗﮯ۔ ﺟﺐ ﻧﯿﻨﺪ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﺘﺎﺗﯽ، ﺗﻮ ﺟﮩﺎﮞ ﺟﮕﮧ ﻣﯿّﺴﺮ ﺍٓ ﺟﺎﺗﯽ، ﺳﻮ ﺭﮨﺘﮯ۔ ﺳﻔﺮﻧﺎﻣﮧ ﺍﺭﺽِ ﻗﺮﺍٓﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﺍﺩﯼٔ ﺳﯿﻨﺎ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﻗﻊ، ﺟﺒﻞِ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ’’ ﻣﻘﺎﻡِ ﺍﻟﯿﺎﺱ ‘‘ ﻭﮦ ﺟﮕﮧ ﮨﮯ، ﺟﮩﺎﮞ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﺳﺎﻣﺮﮦ ﺳﮯ ﺑﮭﺎﮒ ﮐﺮ ﺭﻭﭘﻮﺵ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱؑ ﺣﯿﺎﺕ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﻭﻓﺎﺕ ﭘﺎ ﭼُﮑﮯ؟
ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﻭﻓﺎﺕ ﭘﺎ ﭼُﮑﮯ؟ ﻣﻮٔﺭﺧﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﻣﻔﺴﺮّﯾﻦ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﯾﮧ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﺑﮭﯽ ﺯﯾﺮِ ﺑﺤﺚ ﺍٓﯾﺎ۔ ﺗﻔﺴﯿﺮِ ﻣﻈﮩﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻋﻠّﺎﻣﮧ ﺑﻐﻮﯼؒ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﺟﻮ ﻃﻮﯾﻞ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ، ﺍُﺱ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻣﺬﮐﻮﺭ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺍٓﺗﺸﯿﮟ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍٓﺳﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﭨﮭﺎ ﻟﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﯿﺴﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﯿﮟ۔ ‏( ﺗﻔﺴﯿﺮِ ﻣﻈﮩﺮﯼ، ﺝ 8 ، ﺹ 141 ‏) ﻋﻠّﺎﻣﮧ ﺳﯿﻮﻃﯽؒ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺑﻦِ ﻋﺴﺎﮐﺮؒ ﺍﻭﺭ ﺣﺎﮐﻢؒ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﮐﺌﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﻧﻘﻞ ﮐﯽ ﮨﯿﮟ، ﺟﻦ ﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﯿﮟ۔ ﮐﻌﺐ ﺍﻻﺣﺒﺎﺭؒ ﺳﮯ ﻣﻨﻘﻮﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭼﺎﺭ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﻋﻠﯿﮩﻢ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﺍﺏ ﺗﮏ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﯿﮟ۔ ﺩﻭ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﻀﺮؑ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱؑ ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﺍٓﺳﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﯿﺴﯽٰؑ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺩﺭﯾﺲؑ۔ ‏( ﺩﺭ ﻣﻨﺸﻮﺭ، ﺝ 5 ، ﺹ 285 ‏) ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺑﻌﺾ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﻀﺮؑ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱؑ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ ﺭﻣﻀﺎﻥ ﮐﮯ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪِﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﭩﮭﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺯﮮ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ‏( ﺗﻔﺴﯿﺮ ﻗﺮﻃﺒﯽ، ﺝ 15 ، ﺹ 116 ‏) ﻟﯿﮑﻦ ﺣﺎﻓﻆ ﺍﺑﻦِ ﮐﺜﯿﺮؒ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﺤﻘّﻖ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﻧﮯ ﺍِﻥ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﮐﻮ ﺻﺤﯿﺢ ﻗﺮﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﺍِﻥ ﺟﯿﺴﯽ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ’’ ﯾﮧ ﺍُﻥ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﯿﮟ، ﺟﻦ ﮐﯽ ﻧﮧ ﺗﺼﺪﯾﻖ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺗﮑﺬﯾﺐ، ﺑﻠﮑﮧ ﻇﺎﮨﺮ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺻﺤﺖ ﺑﻌﯿﺪ ﮨﮯ۔ ‘‘ ‏( ﺍﻟﺒﺪﺍﯾﮧ ﻭﺍﻟﻨﮩﺎﯾﮧ، ﺝ 1 ﺹ 338 ‏) ﺑﺎﺋﺒﻞ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ’’ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍٓﮔﮯ ﭼﻠﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺍﯾﮏ ﺍٓﺗﺸﯽ ﺭﺗﮫ ﺍﻭﺭ ﺍٓﺗﺸﯽ ﮔﮭﻮﮌﻭﮞ ﻧﮯ ﺍُﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﺪﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﻠﯿﺎﮦ ﺑﮕﻮﻟﮯ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺳﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ۔ ‘‘ ‏( 2 ۔ ﺳﻼﻃﯿﻦ 11:2 ‏) ۔ﻗﺮﺍٓﻥ ﻭ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﺟﺲ ﺳﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﯾﺎ ﺍٓﭖؑ ﮐﺎ ﺍٓﺳﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺟﺎﻧﺎ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﻮ۔ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﻣﺴﺘﺪﺭﮎ ﺣﺎﮐﻢؒ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ ،ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻣﺬﮐﻮﺭ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﺒﻮﮎ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺍٓﻧﺤﻀﺮﺕﷺ ﮐﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱؑ ﺳﮯ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮨﻮﺋﯽ، ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺤﺪّﺛﯿﻦ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﺣﺪﯾﺚ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ۔ ﺑﮩﺮﺣﺎﻝ، ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﮐﺎ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﻮﻧﺎ ﮐﺴﯽ ﻣﻌﺘﺒﺮ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﻧﮩﯿﮟ ، ﻟﮩٰﺬﺍ ﺍﺱ ﻣﻌﺎﻣﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﻼﻣﺘﯽ ﮐﯽ ﺭﺍﮦ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﮑﻮﺕ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﮐﮯ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺍٓﻧﺤﻀﺮﺕﷺ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ’’ ﻧﮧ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﺗﺼﺪﯾﻖ ﮐﺮﻭ، ﻧﮧ ﺗﮑﺬﯾﺐ۔ ‘‘ ‏( ﻣﻌﺎﺭﻑ ﺍﻟﻘﺮﺍٓﻥ، ﺝ 7 ، ﺹ 472 ‏
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے دوران جہنم کے داروغہ مالک کو دیکھا۔ وہ انتہائی سخت طبیعت کا فرشتہ ہے۔ اس کے چہرہ پر غصہ اور غضب رہتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سلام کیا۔ داروغہ نے سلام کا جواب دیا۔ خوش آمدید بھی کہا،لیکن مسکرایا نہیں۔ اس پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام سے فرمایا؛
"یہ کیا بات ہے کہ میں آسمان والوں میں سے جس سے بھی ملا،اس نے مسکرا کر میرا استقبال کیا، مگر داروغہ جہنم نے مسکرا کر بات نہیں کی۔"
اس پر جبرئیل علیہ السلام نے کہا:
"یہ جہنم کا داروغہ ہے،جب سے پیدا ہوا ہے،آج تک کبھی نہیں ہنسا، اگر یہ ہنس سکتا تو صرف آپ ہی کے لیے ہنستا۔"
یہ بات اچھی طرح جان لیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج جاگنے کی حالت میں جسم اور روح دونوں کے ساتھ ہوئی....بعض لوگ معراج کو صرف ایک خواب کہتے ہیں اور بعض کہتے ہیں صرف روح گئی تھی جسم ساتھ نہیں گیا تھا.... اگر یہ دونوں باتیں ہوتیں تو پھر معراج کے واقعے کی بھلا کیا خصوصیت تھی۔خواب میں تو عام آدمی بھی بہت کچھ دیکھ لیتا ہے....معراج کی اصل خصوصیت ہی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جسم سمیت آسمانوں پر تشریف لے گئے....لہذا گمراہ لوگوں کے بہکاوے میں مت آئیں۔اور پھر یہ بات بھی ہے کہ اگر یہ صرف خواب ہوتا، یا معراج صرف روح کو ہوتی تو مشرکین مکہ مزاق نہ اڑاتے۔جب کہ انہوں نے ماننے سے انکار کیا اور مزاق بھی اڑایا۔خواب میں دیکھے کسی واقعے پر بھلا کوئی کیوں مزاق اڑاتا۔
معراج کے بارے میں اس مسئلے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا یا نہیں۔۔۔۔اس بارے میں دونوں طرح کی احادیث موجود ہیں۔اس معاملے میں بہتر یہ ہے کہ ہم خاموشی اختیار کریں،کیونکہ یہ ہمارے اعتقاد کا مسئلہ نہیں ہے، نہ ہم سے قیامت کے دن یہ سوال پوچھا جائے گا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کے بعد آسمانوں سے واپس زمین پر تشریف لے آئے۔جب اپنے بستر پر پہنچے تو وہ اسی طرح گرم تھا جس طرح چھوڑ کر گئے تھے۔ یعنی معراج کا یہ عجیب واقعہ اور اتنا طویل سفر صرف ایک لمحے میں پورا ہوگیا، یوں سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس دوران کائنات کے وقت کی رفتار کو روک دیا جس کے باعث یہ معجزہ نہایت تھوڑے وقت میں مکمل ہوگیا۔
معراج کی رات کے بعد جب صبح ہوئی اور سورج ڈھل گیا تو جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے۔انہوں نے امامت کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھائی تاکہ آپ کو نمازوں کے اوقات اور نمازوں کی کیفیت معلوم ہوجائے۔معراج سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح شام دو دو رکعت نماز ادا کرتے تھے اور رات میں قیام کرتے تھے،لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پانچ فرض نمازوں کی کیفیت اس وقت تک معلوم نہیں تھی۔
جبرئیل علیہ السلام کی آمد پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ سب لوگ جمع ہوجائیں..... چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام کی امامت میں نماز ادا کی اور صحابہ کرام رضی الله عنہم نے آپ کی امامت میں نماز ادا کی۔
یہ ظہر کی نماز تھی....اسی روز اس کا نام ظہر رکھا گیا۔اس لیے کہ یہ پہلی نماز تھی جس کی کیفیت ظاہر کی گئی تھی-چونکہ دوپہر کو عربی میں ظہیرہ کہتے ہیں اس لیے یہ بھی ہو سکتا ہے یہ نام اس بنیاد پر رکھا گیا ہو،کیونکہ یہ نماز دوپہر کو پڑھی جاتی ہے-اس نماز میں آپ نے چار رکعت پڑھائی اور قرآن کریم آواز سے نہیں پڑھا - 
اسی طرح عصر کا وقت ہوا تو عصر کی نماز ادا کی گئی-سورج غروب ہوا تو مغرب کی نماز پڑھی گئی-یہ تین رکعت کی نماز تھی، اس میں پہلی دو رکعتوں میں آواز سے قرأت کی گئی-آخری رکعت میں قرأت بلند آواز سے نہیں کی گئی-اس نماز میں بھی ظہر اور عصر کی طرح حضرت جبریل علیہ السلام آگے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی امامت میں نماز ادا کررہے تھے اور صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں- اس کا مطلب ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مقتدی بھی تھے اور امام بھی- 
رہا یہ سوال کہ یہ نماز کہاں پڑھی گئیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ خانہ کعبہ میں پڑھی گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ بیت المقدس کی طرف تھا، کیونکہ اس وقت قبلہ بیت المقدس تھا-حضور صلی اللّہ علیہ وسلم جب تک مکہ معظمہ میں رہے اسی کی سمت منہ کرکے نماز ادا کرتے رہے- 
جبرائیل علیہ سلام نے پہلے دن نمازوں کے اول وقت میں یہ نماز پڑھائیں اور دوسرے دن آخری وقت میں تاکہ معلوم ہوجائے،نمازوں کے اوقات کہاں سے کہاں تک ہیں- 
اس طرح یہ پانچ نمازیں فرض ہوئیں اور ان کے پڑھنے کا طریقہ بھی آسمان سے نازل ہوا-آج کچھ لوگ کہتے نظر آتے ہیں... نماز کا کوئی طریقہ قرآن سے ثابت نہیں...لہٰذا نماز کسی بھی طریقے سے پڑھی جاسکتی ہے...ہم تو بس قرآن کو مانتے ہیں...ایسے لوگ صریح گمراہی میں مبتلا ہیں...نماز کا طریقہ بھی آسمان سے ہی نازل ہوا اور ہمیں نماز اسی طرح پڑھنا ہوں گی جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم پڑھتے رہے-یہ بھی ثابت ہوگیا کہ فرض نمازیں پانچ ہیں،حدیث کے منکر پانچ نمازوں کا انکار کرتے ہیں وہ صرف تین فرض نمازوں کے قائل ہیں- لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے وہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں صرف تین نمازوں کا ذکر آیا ہے-حالانکہ اول تو ان کی یہ بات ہے ہی جھوٹ دوسرے یہ کہ جب احادیث سے پانچ نمازیں ثابت ہیں تو کسی مسلمان کے لیے ان سے انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی- 
پانچ نمازوں کی حکمت کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے پانچ حواس یعنی پانچ حسیں رکھیں ہیں-انسان گناہ بھی انہی حسوں کے ذریعے سے کرتا ہے-(یعنی آنکھ، کان، ناک، منہ، اعضاء و جوارح یعنی ہاتھ پاؤں) لہٰذا نمازیں بھی پانچ مقرر کی گئیں تاکہ ان پانچوں حواسوں کے ذریعے دن اور رات میں جو گناہ انسان سے ہوجائیں، وہ ان پانچوں نمازوں کے ذریعے دھل جائیں اس کے علاوہ بھی بے شمار حکمتیں ہیں-
یہ بھی یاد رکھیں کہ معراج کے واقعے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمانوں پر جانا ثابت کرتا ہے کہ آسمان حقیقت میں موجود ہیں- 
موجودہ ترقی یافتہ سائنس کا یہ نظریہ ہے کہ آسمان کا کوئی وجود نہیں بلکہ یہ کائنات ایک عظیم خلا ہے-انسانی نگاہ جہاں تک جاکر رک جاتی ہے، وہاں اس خلا کی مختلف روشنیوں کے پیچھے ایک نیلگوں حد نظر آتی ہے-اسی نیلگوں حد کو انسان آسمان کہتا ہے- 
لیکن اسلامی تعلیم نے ہمیں بتایا ہے کہ آسمان موجود ہیں اور آسمان اسی ترتیب سے موجود ہیں،جو قرآن اور حدیث نے بتائی ہے-قرآن مجید کی بہت سی آیات میں آسمان کا ذکر ہے بعض آیات میں ساتوں آسمان کا ذکر ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان ایک اٹل حقیقت ہے نہ کہ نظر کا دھوکہ-

حضرت شعیب علیہ السّلام کی بعثت’’ مدین‘‘ میں ہوئی۔ مدین ایک قبیلے کا نام ہے اور اُسی قبیلے کے سبب بستی کا یہ نام مشہور ہوگیا۔ دراصل، حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے ایک بیٹے کا نام مدین تھا اور اُن کی نسل کو’’ اہلِ مدین‘‘ کہا جاتا ہے۔ وہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی تیسری بیوی، قطورا کے بطن سے تھے اور اسی لیے یہ خاندان ’’بنی قطورا‘‘ کہلاتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے بیٹے، مدین اپنے اہل وعیّال کے ساتھ اپنے سوتیلے بھائی، حضرت اسماعیل علیہ السّلام کے قریب ہی حجاز میں آباد ہوگئے تھے۔ یہ جگہ بحیرۂ قلزم کے مشرقی کنارے اور عرب کے شمال مغرب میں شام سے متصل حجاز کے آخری حصّے میں واقع تھی۔ حجاز سے شام، فلسطین اور مِصر کے سفر کے دَوران قبیلہ مدین کی اِس بستی کے کھنڈرات دِکھائی دیتے ہیں، جب کہ مدین نام کا ایک شہر آج بھی شرقی اُردن کی بندرگاہ، معان کے قریب موجود ہے۔
قرآنِ کریم میں تذکرہ
قرآنِ کریم میں حضرت شعیبؑ اور اُن کی قوم کا تذکرہ گیارہ مقامات پر آیا ہے۔ سورۃ الاعراف، سورۂ ھود، سورۃ الحجر، سورۂ الشعراء اور سورۂ عنکبوت میں آپؑ کا ذکر موجود ہے۔ حضرت شعیبؑ جس قوم کی طرف مبعوث فرمائے گئے، قرآنِ کریم میں اُسے’’ اہلِ مدین‘‘،’’ اصحابِ مدین‘‘ اور ’’اصحابِ ایکہ‘‘ کے نام سے پکارا گیا ہے۔اصحابِ مدین اور اصحابِ ایکہ ایک ہی قبیلے کے دو نام ہیں یا یہ دونوں الگ الگ قبائل ہیں؟ اس بارے میں مفسرّین کی مختلف آرا ہیں۔ کچھ کی رائے ہے کہ یہ دونوں علیٰحدہ علیٰحدہ قومیں تھیں، ایک قوم کی ہلاکت کے بعد حضرت شعیبؑ دوسری قوم کی طرف مبعوث فرمائے گئے۔ بعض نے لکھا کہ مدین اور اصحابِ ایکہ( جُھنڈوالے) ایک ہی قبیلے کے دو نام ہیں، ان دونوں کی رہائش مختلف جگہوں پر تھی۔ اصحابِ مدین تہذیب وتمدّن سے آشنا شہری قبیلہ تھا، یہ لوگ جس بڑی شاہ راہ پر رہتے تھے، وہ شام سے فلسطین، یمن اور مِصر سے ہوتی ہوئی بحرقلزم کے مشرقی کنارے سے گزرتی ہے اور حجاز کے تجارتی قافلے اسی راستے سے سفر کیا کرتے تھے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں’’اور یہ دونوں بستیاں (حضرت لوطؑ کی قوم اور مدین) بڑی شاہ راہ پر آباد تھیں۔‘‘ ( سورۃ الحجر 79)اصحابِ ایکہ ایک بدوی قبیلہ تھا۔ عربی میں’’ ایکہ‘‘ اُن سرسبز وشاداب جھاڑیوں کو کہتے ہیں، جو ہرے بھرے درختوں پر مشتمل گھنے جنگلوں میں جُھنڈ کی شکل میں بہ کثرت ہوتی ہیں۔ علّامہ ابنِ کثیرؒ کے مطابق’’ ایکہ‘‘ ایک درخت کا نام تھا،جس کی قبیلے کے لوگ پوجا کرتے تھے، چناں چہ اس نسبت سے اہلِ مدین ہی کو اصحابِ ایکہ کہا گیا۔بہرحال، اکثریت کی رائے یہی ہے کہ یہ دونوں قومیں ایک ہی قبیلے اور نسل سے تعلق رکھتی تھیں اور قومِ شعیبؑ کہلاتی تھیں۔ بڑی شاہ راہ پر آباد قبیلے کے لوگوں کو والد کی نسبت سے مدین کہا جانے لگا، جب کہ سر سبز علاقے میں رہنے والے ’’ اصحابِ ایکہ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔
قومِ شعیبؑ کے عیوب
دنیا میں جتنے بھی انبیائے کرامؑ مبعوث فرمائے گئے، اُن کی دعوت کا مشترکہ مقصد حقوق کی بہ احسن طریقے سے ادائی کی تعلیم عام کرنا تھا۔ حقوق دو قسم کے ہیں، ایک حقوق اللہ یعنی اللہ کی عبادت اور اُس کی ہدایات پر عمل اور دوسرا حقوق العباد، جس کا تعلق انسانوں سے ہے۔ دنیا میں قومِ لوطؑ کے بعد قومِ شعیبؑ وہ قوم تھی، جو دونوں حقوق پامال کررہی تھی۔ ایک طرف وہ اللہ اور اُس کے رسولؑ پر ایمان نہ لاکر حقوق اللہ کی خلاف ورزی کر رہی تھی، تو دوسری طرف، ناپ تول میں کمی،لُوٹ مار، رہزنی، ڈرانا دھمکانا، زمین پر فساد جیسے گھناؤنے جرائم کی مرتکب ہوکر حقوق العباد کی دھجیاں بکھیر رہی تھی۔قرآنِ کریم میں قومِ شعیبؑ کے تین طرح کے عیوب کا تذکرہ ملتا ہے۔
1۔ وہ لوگ کفروشرک میں مبتلا تھے اور درختوں کی پوجا کرتے تھے۔
2۔ بیوپار میں بے ایمانی اور ناپ تول میں کمی کرتے تھے۔
3۔راستوں میں بیٹھ کر لُوٹ مار کرتے، لوگوں کے اموال چھینتے اور غنڈا ٹیکس وصول کرتے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ دنیا میں غنڈا ٹیکس کی بنیاد قومِ شعیبؑ ہی نے رکھی، تو بے جا نہ ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی اصلاح اور توحید کی دعوت کے لیے اُن ہی کی قوم کے ایک نیک اور سچّے انسان، حضرت شعیب علیہ السّلام کو مبعوث فرمایا۔ قرآنِ پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ اور ہم نے مدین کی طرف اُن کے بھائی شعیب ؑکوبھیجا۔‘‘(سورۃ الاعراف85)
توحید کی دعوت
پچھلی قوموں کی طرح قومِ شعیبؑ میں بھی مشرکانہ رسم وعقائد کا دَور دورہ تھا۔حضرت شعیبؑ نے پہلے اُنہیں توحید کی دعوت دی، پھر اُن کی حرکتوں پر اُنہیں متنبّہ کیا ’’ اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سِوا کوئی تمہارا معبود نہیں۔ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی آچُکی ہے، تو تم ناپ تول پوری طرح کیا کرو اور لوگوں کو چیزیں کم نہ دیا کرو اور زمین میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرو۔ اگر تم صاحبِ ایمان ہو تو سمجھ لو کہ یہ بات تمہارے حق میں بہتر ہے اور ہر راستے پر مت بیٹھا کرو، جو شخص اللہ پر ایمان لاتا ہے، اُسے تم ڈراتے اور راہِ حق سے روکتے ہو اور اس میں کبھی ( عیب) ڈھونڈتے ہو ۔ اور یاد کرو! جب کہ تم بہت تھوڑے تھے، پھر اللہ نے تم کو کثیر کردیا اور دیکھو! کیا ہوا انجام فساد کرنے والوں کا۔‘‘ (سورۃ الاعراف 86,85)
متکبّر سرداروں کی دھمکی
حضرت شعیبؑ کی توحید کی دعوت سُن کر قوم کے متکبّر سردار چراغ پا ہوگئے اور اُنہوں نے حضرت شعیبؑ کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اُن کی قوم کے متکبّر سرداروں نے کہا’’ اے شعیبؑ! ہم تم کو اور تمہارے ساتھ ایمان لانے والوں کو اپنی بستی سے باہر نکال دیں گے، ورنہ تم سب کو ہمارے مذہب پر واپس آنا پڑے گا۔‘‘ (سورۃ الاعراف88) اس کے ساتھ ہی اُن کی قوم کے وہ سردار، جو کافر تھے (وہ قوم کے لوگوں سے) کہنے لگے،’’ اگر تم شعیبؑ کے پیچھے چلے، تو یاد رکھو! اس صُورت میں تمہیں سخت نقصان اٹھانا پڑے گا۔‘‘ (سورۃ الاعراف90)
قوم کے سرداروں سے مکالمہ
حضرت شعیبؑ نے اپنی قوم کے سرداروں سے فرمایا ’’تمہارے باطل مذہب سے اللہ تعالیٰ نے نجات دے دی ہے، اس کے بعد اگر ہم تمہارے مذہب میں واپس آجائیں، تو یہ ہماری طرف سے اللہ تعالیٰ پر سخت بہتان ہوگا اور ہمیں شایان نہیں کہ اس میں لَوٹ جائیں۔‘‘ (سورۃ الاعراف89) حضرت شعیبؑ اپنی قوم کی بداعمالیوں پر سخت رنجیدہ رہتے اور اُنہیں بار بار وعظ ونصیحت کرتے۔ اُنہوں نے قوم کو اللہ کے عذاب سے ڈراتے ہوئے متنبّہ فرمایا’’ اے قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو کہ اس کے سِوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ناپ تول میں کمی نہ کرو، مَیں تم کو آسودہ حال دیکھتا ہوں اور (اگر تم ایمان نہ لائو گے) تو مجھے تمہارے بارے میں ایک ایسے دن کے عذاب کا خوف ہے، جو تم کو گھیر رہے گا۔‘‘ (سورۂ ھود 84)اُنہوں نے کہا’’ شعیبؑ! کیا تمہاری نماز تمہیں یہ سِکھاتی ہے کہ جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں، ہم اُن کو تَرک کردیں یا اپنے مال میں تصرّف کرنا چاہیں تو نہ کریں؟ تم تو بڑے نرم دِل اور راست باز ہو۔‘‘(سورۂ ھود 87) حضرت شعیبؑ نے جواب دیا’’ اے قوم! دیکھو تو اگر مَیں اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل پر ہوں اور مَیں نہیں چاہتا کہ جس اَمر سے مَیں تمہیں منع کروں، خود اُس کو کرنے لگوں۔ مَیں تو جہاں تک مجھ سے ہوسکے(تمہارے معاملات کی) اصلاح چاہتا ہوں۔ اور مجھے توفیق ملنا اللہ ہی (کے فضل سے)ہے، مَیں اُس پر بھروسا رکھتا ہوں اور اُسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ اور اے قوم! میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کام نہ کروادے کہ جیسی مصیبت نوحؑ کی قوم یا ھودؑ کی قوم یا صالح ؑ کی قوم پر واقع ہوئی تھی، ویسی ہی مصیبت تم پر واقع ہو اور لوطؑ کی قوم کا (زمانہ تو) تم سے کچھ دُور نہیں، اپنے پروردگار سے بخشش مانگو اور اُس کے آگے توبہ کرو۔ بے شک میرا پروردگار رحم والا اور محبّت کرنے والا ہے۔‘‘ (سورۂ ھود 90-88)روایت میں آتا ہے کہ حضرت شعیبؑ نابینا تھے یا اُن کی بصارت بہت کم تھی، چناں چہ حضرت شعیبؑ کے وعظ و نصیحت کے جواب میں یہ سردارطعنہ زنی کرتے ہوئے اُنہیں سنگسار کرنے کی دھمکیاں دینے لگے۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’اُنہوں نے کہا’’ شعیبؑ! تمہاری بہت سی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ تم ہم میں کم زور بھی ہو اور اگر تمہارے بھائی نہ ہوتے، تو ہم تم کو سنگسار کر دیتے اور تم ہم پر (کسی طرح بھی ) غالب نہیں ہو۔‘‘(سورۂ ھود91)اس پر حضرت شعیبؑ نے اپنی قوم سے فرمایا’’ اے قوم! کیا میرے بھائی بندوں کا دبائو تم پر اللہ سے زیادہ ہے؟ اور اُس کو تم نے پیٹھ پیچھے ڈال رکھا ہے؟ میرا پروردگار تو تمہارے سب اعمال پر احاطہ کیے ہوئے ہے اور بردارانِ ملّت! تم اپنی جگہ کام کیے جائو، مَیں (اپنی جگہ) کام کیے جاتا ہوں۔ تم کو عَن قریب معلوم ہوجائے گا کہ رُسوا کرنے والا عذاب کس پر آتا ہے اور جھوٹا کون ہے؟ اور تم بھی انتظار کرو، مَیں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔‘‘(سورۂ ھود 92-93)
حضرت شعیبؑ کی دُعا
قوم کے متکبّر سرداروں کی جارحانہ گفتگو کے بعد حضرت شعیبؑ کو اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کے دِلوں پر مُہر لگ چُکی ہے اور اُن پر کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہوگا، لہٰذا اُنہوں نے اپنے ربّ سے دُعا کی’’ اے پروردگار! ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دے اور آپ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں۔‘‘ (سورۃ الاعراف89) درحقیقت ان الفاظ کے ساتھ حضرت شعیبؑ نے اپنی قوم میں سے جو کفّار تھے، اُن کی ہلاکت کی دُعا کی تھی، جسے اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالیا۔
عذابِ الٰہی کا نزول
قوم شعیبؑ تین طرح کےعیوب میں مبتلا تھی اور اللہ تعالیٰ نے اُسے تین طرح کے عذاب سے نیست و نابود کیا۔ قرآنِ کریم میں تین طرح کے عذاب کا تذکرہ ہے، جو قومِ شعیبؑ پر آیا۔(1) زمینی بھونچال یا زلزلہ( 2) چنگھاڑ( 3) آگ کے بادل۔ سورۂ الاعراف میں ہے کہ’’ اُن کو بھونچال نے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔‘‘ سورۂ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’ اُنہوں نے ان (شعیبؑ) کو جھوٹا سمجھا، سو اُن کو زلزلے نے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔‘‘ سورۂ ھود میں چنگھاڑ کے ذریعے عذاب کا ذکر آیا، کیوں کہ یہ لوگ اپنے نبی کا مذاق اور تمسخر اڑایا کرتے، پھبتیاں کستے تھے۔اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتے کے ذریعے اس قوم پر ایک چیخ لگوائی، جس سے اُن کے کلیجے پھٹ گئے۔ قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’ اور جو ظالم تھے، اُن کو چنگھاڑ نے آ دبوچا، تو وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (سورۂ ھود 94)سورۂ الشعراء میں بادل کے عذاب کا تذکرہ ہے، جو اُن کی اپنی خواہش کا نتیجہ تھا۔اُنہوں نےکہا تھا کہ’’ تم اُن میں سے ہو، جن پر جادو کردیا جاتا ہے اور تم تو صرف ہماری طرح کے آدمی ہو اور ہمارا خیال ہے کہ تم جھوٹے ہو۔ اگر تم سچّے ہو، تو ہم پر آسمان سے ایک ٹکڑا لا گرائو۔‘‘(سورۃ الشعراء 187-185) چوں کہ’’ اُنہوں نے جھٹلایا تھا، تو اُنہیں بادل والے دن کےعذاب نے پکڑ لیا۔ وہ بڑے بھاری دن کا عذاب تھا۔‘‘ ( سورۃ الشعراء 189)علّامہ ابنِ کثیرؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُن پر پہلے تو سخت گرمی مسلّط فرمائی اور سات دن مسلسل اُن پر ہَوا بند رکھی، جس کی وجہ سے پانی اور سایہ بھی اُن کی گرمی نہ کم کر سکا اور نہ ہی درختوں کے جُھنڈ کام آئے، چناں چہ اس مصیبت سے گھبرا کر بستی سے جنگل کی طرف بھاگے، وہاں اُن پر بادلوں نے سایہ کرلیا۔ سب گرمی اور دھوپ کی شدّت سے بچنے کے لیے اُس سائے تلے جمع ہوگئے اور سُکون کا سانس لیا۔ لیکن پھر چند لمحوں بعد ہی آسمان سے آگ کے شعلے برسنے شروع ہوگئے، زمین زلزلے سے لرزنے لگی اور پھر آسمان سے ایک سخت چنگھاڑ آئی، تو اُس نے اُن کی روحوں کو نکال دیا (کلیجے پھٹ گئے) اور جسموں کو تباہ و برباد کردیا اور سب اوندھے گرے پڑے رہ گئے۔‘‘
حضرت شعیبؑ کی مکّہ مکرّمہ ہجرت
قوم پر عذاب آتا دیکھ کر حضرت شعیب علیہ السّلام اور اُن کے ساتھی یہاں سے چل دیئے۔ جمہور مفسرّین نے فرمایا ہے کہ آپؑ مکّہ معظّمہ آگئے اور آخر تک یہیں قیام رہا۔ قوم کی انتہائی سرکشی اور نافرمانی سے مایوس ہو کر حضرت شعیب علیہ السّلام نے بددُعا تو کردی، مگر جب قوم پر عذاب آیا، تو پیغمبرانہ شفقت و رحمت کے سبب دِل دُکھا، تو اپنے دِل کو تسلّی دینے کے لیے قوم کو خطاب کرکے فرمایا کہ’’ مَیں نے تو تم کو تمہارے ربّ کے احکام پہنچادیئے تھے اور تمہاری خیرخواہی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا تھا، مگر مَیں کافر قوم کا کہاں تک غم کروں۔‘‘(معارف القرآن ج3ص 631)
خطیب الانبیاء
حضرت شعیبؑ کو’’ خطیب الانبیاء‘‘ یعنی’’ نبیوں کا خطیب‘‘ بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ آپؑ فصاحت و بلاغت اور زورِ بیان میں اپنی مثال آپ تھے۔ حضرت ابنِ عبّاسؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ جب حضرت شعیبؑ کا ذکر فرماتے تو فرماتے’’ یہ انبیاءؑ میں خطیب ہیں۔‘‘
وفات اور قبرِ مبارک
حضرت شعیبؑ نے طویل عُمر پائی۔ روایت کے مطابق، انتقال کے وقت آپؑ کی عُمر چار سو سال تھی۔ اُردن کے شہر’’ السلط‘‘ کے قریب وادیٔ شعیبؑ میں آپؑ سے منسوب ایک مزار ہے، جس پر حکومت نے شان دار مقبرہ اور اس سے متصل مسجد بھی تعمیر کروائی ہے۔ روایت یہ بھی ہے کہ اپنی قوم کی تباہی کے بعد حضرت شعیبؑ ،حضرِموت کے مشہور شہر’’شیون‘‘ چلے گئے تھے۔ اُس کے مغربی جانب’’ شبام‘‘ نامی مقام پر آپؑ نے انتقال فرمایا اور وہیں آپؑ کی قبر ہے۔تاہم، تفسیر ابنِ کثیر میں وہب بن منبہ سے مروی ہے کہ حضرت شعیبؑ اور اُن کے ساتھیوں نے مکّہ مکرّمہ میں وفات پائی اور آپؑ کی قبر، کعبہ شریف کی غربی جانب ہے۔(واللہ اعلم) بعض مفسرّین کے مطابق، آپؑ کو حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے سُسر ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔


سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ولادت بعثت نبوی کے چار(4) سال بعد ہوئی، اس وقت تک آپ کے والدین(حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور ام ّرومانؓ) اسلام قبول کرچکے تھے۔ اسم گرامی عائشہ،لقب صدیقہ،خطاب”ام المؤمنین“اور کنیت اپنے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیر کی نسبت سے ”ا م عبداللہ“تھی۔ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد آپ کا نکاح حضورﷺ سے ہوا،سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا وہ خوش نصیب عورت ہیں جن کو نبی ﷺ کے لیے خود اللہ تعالیٰ نے منتخب فرمایا، نکاح سے پہلے خواب میں نبی ﷺ کو دکھلایا اور پھر آپ نبی ﷺ کے نکاح میں آئیں،چارسو(400) درہم مہر مقرر ہوا۔ نکاح کے بعد حضورﷺ تین سال مکہ مکرمہ میں مقیم رہے۔ اس کے بعد آپ نے ہجرت فرمائی جس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھے،لیکن ان کے اہل و عیال مکہ ہی میں قیام پذیر رہے اور مدینہ ہجرت مکمل ہونے کے بعد جب وہاں تسلی بخش صورتحال سامنے آئی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے اہل و عیال کو مدینے بلوالیا، یوں شوال کے مہینے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی عمل میں آئی۔رخصتی کے لیے شوال کے مہینے کے انتخاب میں بھی ایک حکمت تھی وہ یہ کہ قدیم زمانے میں چوں کہ شوال کے مہینے میں طاعون آیا تھا اور بڑا جانی نقصان ہوا تھا،اس لیے اہل عرب اس مہینے کو منحوس سمجھتے اور اس میں شادی بیاہ وغیرہ نہیں کرتے تھے،نبی اکرم ﷺ نے اس مہینے کا انتخاب فرماکر اس غلط خیال اور جاہلانہ توہم کی عملی طور پر بیخ کنی فرمادی۔
رخصتی چوں کہ کم سنی میں ہوئی تھی،اس لیے کم سن بچیوں کی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی کھیل کود کی بڑی شوقین تھیں،محلے کی لڑکیاں ان کے پاس جمع رہتی تھیں،ان کوسب سے زیادہ دوکھیل مرغوب تھے،ایک گڑیوں کے ساتھ کھیلنا اور دوسرا جھولا جھولنا۔حدیث کی کتابوں میں آتا ہے کہ یک مرتبہ آپ ؓ گڑیوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں، کہ رسول اللہ ﷺ پہنچ گئے،ان گڑیوں میں ایک گھوڑابھی تھا،جس کے دو پر بھی تھے، آپﷺ نے پوچھا:یہ کیسا گھوڑا ہے،کیا گھوڑے کے بھی پرہوتے،آپؓ نے برجستہ جواب دیا:حضرت سلیمان ؑ کے گھوڑں کے بھی تو پر تھے۔اس جواب سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ بچپن میں بھی کس قدر دینی معلومات رکھنے والی اور حاضر جواب تھیں۔
حضور اقدسﷺکوآپ ؓ سے بے انتہا محبت تھی، بعض اوقات دوسری ازواج مطہرات بشری تقاضے سے اس بات کو محسوس بھی کرتیں اور کبھی کبھی احتجاج تک کی نوبت آجاتی تھی،اسی نوع کا ایک واقعہ حدیث کی کتابوں میں لکھا ہے کہ:حضرت ام سلمہ نے ایک بارآپ ﷺ سے عرض کیا کہ آپ ﷺ اپنے اصحاب کو کہیں کہ وہ جوہدایا اور تحائف وغیرہ بھیجتے ہیں وہ تمام ازواج کے یہاں قیام کے دنوں میں بھی بھیجا کریں،صرف (حضرت) عائشہؓ کی باری کے دن ہی کیوں بھیجتے ہیں؟نبی کریم ﷺ نے ان کی بات پورے تحمل سے سنی اور پیار بھرے لہجے میں فرمایا: اللہ کی قسم!مجھے تو وحی بھی عائشہ کے حجرے میں آتی ہے، تم میں سے کسی کے حجرے میں نہیں آتی۔
ایک اور واقعہ ہے کہ:حضرت زینبؓ ایک دن حجرہ ئعائشہؓ میں تشریف لائیں، جب کہ رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے،وہ کافی غصے میں تھیں،کہنے لگیں: آپ(ﷺ) کو ابوبکر کی بیٹی کے علاوہ بھی کسی کی خبر ہے؟ وہ بڑی عمر کی خاتون تھیں اور حضرت عائشہؓ ان کی بیٹیوں کی عمر کی تھیں،پھرحضرت عائشہؓ کی طرف رخ کیا اور دل کی بھڑاس نکالنے لگیں، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:میں کن اکھیوں سے اللہ کے رسول ﷺ کی طرف دیکھ رہی تھی،ان کا مقصود یہ تھا کہ آپ ﷺ ان کی طرف سے جواب دیں یا پھرانھیں جواب دینے کی اجازت دیں،نبی کریم ﷺ نے رخ انور حضرت عائشہؓ کی طرف کیا اور فرمایا: تم خود جواب دو،حضرت عائشہ ؓ نے جو ترکی نہ ترکی جواب دیا تو حضرت زینب ؓ دیکھتی ہی رہ گئیں،یہ دو سوکنوں کا معاملہ تھا،اس لیے حضور اکرم ﷺ درمیان میں نہیں آئے،تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔
مذکورہ واقعات میں یہ بات ہر وقت ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ حضرت امّ سلمہ ؓ اور حضرت زینب ؓنے جو شکوہ یا اعتراض کیا،وہ ایک بیوی ہونے کی حیثیت سے اپنے شوہر سے تھا،نہ کہ امتی کا اپنے نبی سے۔بعض لوگوں کا اس قسم کے واقعات کی آڑ میں ازواج مطہرات کو چرب زبان اور بے ادب کہنا بدترین گستاخی ہے،تمام ازواج مطہرات ایمان والوں کی مائیں ہیں اور کوئی فرماں بردار بیٹا اپنی ماں پر ایسی تنقید کی جراء ت کبھی نہیں کرسکتا۔اللہ اپنی پناہ میں رکھے۔آمین!
ایک موقع پراللہ کے رسول ﷺ اپناجوتا گانٹھ رہے تھے اور پسینے کے قطرے موتیوں کی طرح جلدمبارک سے نکلتے توان میں نور کی چمک پیدا ہوتی،جو بڑھتی ہی چلی جاتی تھی۔ چہرہ انورنورانی تجلیوں کا محور بنا ہوا تھا،جیسے چاند پر تاروں کی جھڑی لگی ہو،حضرت عائشہ ؓ مسلسل یہ منظر دیکھ رہی تھیں،پھر روئے انور کے قریب آئیں اور کہنے لگیں: اے اللہ کے رسول ﷺ! اللہ کی قسم!آج اگر شاعرابو کبیرہذلی موجود ھوتا اور آپ کے چہرہ مبارک کو دیکھتا تو اسے اپنے اشعار کا درست مصداق مل جاتا جو اس نے اپنے خیالی محبوب کی شان میں کہے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، سناؤ،ذراہم بھی سنیں۔۔حضرت عائشہؓ نے یہ شعر پڑھا:
ترجمہ: میں نے اس کے روئے تاباں پہ نگاہ ڈالی تو اس کی شانِ درخشندگی ایسی تھی،جیسے بادل کے کسی ٹکڑے میں بجلیاں کوند رہی ہوں۔
یہ سن کرللہ کے رسول ﷺ نے دستِ مبارک میں جو کچھ تھا اسے رکھ دیا اور حضرت عائشہؓ کا ماتھا چوم کر فرمایا:عائشہؓ! جو سرور مجھے اس کلام سے حاصل ہوا ہے، وہ تجھے اس نظارے سے بھی حاصل نہ ہو ا ہوگا۔یہ بھی محبت کے اظہار کا ایک طریقہ تھا۔اس میں مسلم شوہروں کے لیے اسوہ بھی ہے کہ خاتون خانہ کی تعریف وحوصلہ افزائی کرنا کوئی غیر اخلاقی یا غیر شرعی بات نہیں،بلکہ محبوب دو جہاں ﷺ کی سنت ہے۔
ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آؤ عائشہ! و دوڑ میں مقابلہ کرتے ہیں،چناں چہ مقابلہ شروع ہوا،چوں کہ حضرت عائشہ ؓدبلی پتلی تھیں،اس لیے نبی اکرم ﷺ سے آگے نکل گئیں۔ پھر ایک عرصہ گزرنے کے بعد،جب حضرت عائشہ ؓ کا وزن بڑھنے لگا تھا،حضور ﷺ نے فرمایا:پھر مقابلہ کرتے ہیں،اور آپ ﷺآگے نکل گئے،اس موقع پر دل لگی کرتے ہوئے فرمایا: یہ اس دن کا جواب ہے-
شان محبوبیت کی ایک اور ادا ملاحظہ فرمائیے!جان دو عالم ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا:عائشہؓ! جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو مجھے پتا چل جاتا ہے،حضرت عائشہؓ نے پوچھا:وہ کیسے؟آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہوتو کہتی ہو:ربِ محمد(ﷺ)کی قسم،اور جب کوئی ناراضی ہو تو کہتی ہو:ربِ ابراہیم ؑکی قسم!حضور ﷺ اپنی رفیقہ ئ حیات کو راضی کس طرح فرمایا کرتے تھے،اس کا دل فریب و قابل تقلید نمونہ بھی ملاحظہ فرمائیں:اگر حضرت عائشہ ؓ ناراض ہوتیں تو جب وہ پانی پینے لگتیں تو رسول اکرم ﷺ ان کے ہاتھ سے پیالہ لے لیتے اور جہاں حضرت صدیقہ ؓنے منہ رکھ کے پانی پیا تھا، ان کو دکھا کر اسی جگہ منہ رکھ کر پانی نوش فرماتے……اور ساری ناراضی ختم ہوجاتی۔
حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ اپنے مرض الوفات میں دوسری ازواج مطہرات کی اجازت سے حضرت عائشہ ؓ کے حجرے میں منتقل ہوئے،یوں آخری ایا م میں سب سے زیادہ محبوب ﷺ کی خدمت کا شرف حضرت عائشہ ؓ کو ملا،ان کی چبائی ہوئی مسواک حضور ﷺ نے استعمال فرمائی،ان کی گود میں سر رکھ کر اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے اور ان کے حجرے میں مدفون ہوئے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاپر جب منافقین نے تہمت لگائی تھی تو ان کی صفائی کسی انسان نے نہیں دی،بلکہ خود رب کائنات نے آسمان نے دی اور سورہ نور کی تقریباًبیس آیات میں ان کی شانِ معصومیت ایسے بھرپور اور پُراثر و پرکشش انداز میں بیان فرمایاکہ جس سے بہتر انداز میں آپ کی معصومیت کو بیان ہی نہیں کیا جاسکتاتھا، تاقیامت یہ آیات مبارکہ ان کی طہارت، عفت، پاکدامنی اور پاکیزگی کی گواہی دیتی رہیں گی۔ ایک موقع پرحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جبرائیل آتے ہیں اور تمہیں سلام کہتے ہیں۔ آپ نے جواب میں کہا کہ ان پر بھی سلام اور اللہ کی رحمت ہو۔اس خصوصیت میں سوائے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے کوئی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ شریک نہیں۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مدح بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:(حضرت)عائشہ(رضی اللہ عنہا)کو تمام عورتوں پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پرفضیلت حاصل ہوتی ہے۔(بخاری شریف)
حضرت عمروبن عاص ؓسے روایت ہے کہ ان کے دریافت کرنے پر نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا:”عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب میرے نزدیک عائشہ ؓ اور مردوں میں ان کے والد (ابوبکر)ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہااللہ تعالیٰ کی اپنے اوپر ہونے والی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتی ہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے نو(9) خوبیاں ایسی عطا فرمائیں جوکسی عورت کو نہ ملیں:
۱……میں آپ کے خلیفہ اور آپ کے سب سے محبوب دوست ابوبکر صدیقؓ کی صاحبزادی ہوں۔
۲…… مجھے پاکیزہ گھرانے میں پیدا فرمایا گیا،میں نے آنکھ کھولی تو اپنے گھر میں اسلام کی ہی بات سنی۔
۳……نکاح سے پہلے میری تصویر حضرت جبرئیل امین علیہ السلام نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کی۔
۴……نبی ﷺ نے میرے سوا کسی اور کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا،میرا نکاح فقط سات برس کی عمر میں اور رخصتی نو برس کی عمر میں ہوئی۔
۵……نبی ﷺ پر وحی اس حالت میں بھی نازل ہوجاتی تھی کہ آپ میرے لحاف میں ہوتے تھے،امت کو میری وجہ سے تیمم کی اجازت ملی۔
۶……میں نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو کھلی آنکھوں سے دیکھا،اورمجھ سے مغفرت اور رزق کا وعدہ اللہ نے فرمایا ہے۔
۷……میری برأت میں اللہ تعالیٰ نے آسمان سے وحی نازل فرمائی۔
۸……بوقت وصال نبی اکرم ﷺ کا سرمبارک میری گود میں تھا،آپ کاآخری عمل یہ تھا کہ آپ نے میری چبائی ہوئی مسواک استعمال فرمائی۔
۹……نبی ﷺ کی تدفین میرے حجرے میں ہوئی۔
خلفائے راشدین ؓ کے زمانے میں بھی ان کا فتویٰ قبول کیا جاتا تھا۔حضرت عائشہ صدیقہؓنے شریعت اسلامیہ کے متعلق احکام و قوانین اور اخلاق و آداب کی تعلیم کے حوالے سے نبی ﷺ سے اتنا کچھ حاصل کرلیا تھا کہ علمی اعتبار سے کوئی مرد و عورت ان کی معلومات کے ہم پلہ نہیں تھا۔ آپ اپنی ذات میں فقیہہ،مفسرہ اور مجتہدہ تھیں،تفسیر، حدیث، اسرار شریعت، خطابت اور ادب و انساب میں ان کو کمال حاصل تھا،شعرا کے بڑے بڑے قصیدے ان کو زبانی یاد تھے،آپ کا شمار مدینہ منورہ کے ان علماء میں ہوتا تھا کہ جن کے فتاویٰ پر عام مسلمانوں کو مکمل اور بھرپور اعتماد تھا،یہاں تک کہ بڑے بڑے صحابہ کرام کو بھی کسی مسئلے میں الجھن اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تو وہ آپ سے معلوم کرایا کرتے تھے،کیوں کہ سب کو اس بات کا اعتراف تھا کہ حضوراکرم ﷺ کے احکام کی تبلیغ و اشاعت میں ام المؤمنین کا کوئی ثانی نہیں،جیسا کہ ابومسلم عبدالرحمنؒ کا قول ہے کہ حضور ﷺکی احادیث و سنن، فقہی آراء، آیات کے شان نزول اور فرائض (میراث) میں حضرت عائشہ سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں تھا۔ آپ نے عورتوں، مردوں میں اسلام اور اس کے احکام و قوانین، اخلاق و آداب کی تعلیم دینے میں پوری زندگی گزار کر اسلام کی بہت بڑی خدمات انجام دیں۔ان کا شمار ان صحابہ ؓ میں ہوتا ہے جن سے کثرت سے احادیث مروی ہیں،ان کی مرویات کی تعدا د دو ہزار سے زائدہے۔اہل علم کا کہنا ہے کہ امت کو آدھا دین صرف حضر ت عائشہ ؓ کے وسیلے سے ملا،اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کے دو حصے ہیں،گھر کی زندگی اور گھر سے باہر کی زندگی،سرور دو عالم ﷺ کی گھریلو زندگی کا علم امت کو حضرت عائشہ ؓ کے زریعے ہوا۔ حضرت عائشہ ؓ کم سن تھیں اور فطری طور پر انتہائی ذہین اور مجتہدانہ دماغ رکھتیں تھیں،یہی وجہ ہے کہ قربت رسول ﷺ کا جس قدرانھوں نے فائدہ اٹھایا،محبوب کے شب وروز کو محفوظ کیا،یہ انہی کا خاصہ ہے،یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہرسال حج کے لیے مکہ جاتیں،تو آپ کے خیمے میں سائلین کا ہجوم ہوجاتا تھا،جو ان سے مختلف مسائل میں راہ نمائی طلب کرنے کے لیے آتے تھے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو عبادت سے بھی بے انتہا شغف تھا، نہایت متقی اور حددرجہ اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والی تھیں،صرف ایک جوڑا پاس رکھتیں اور اسی کو دھو دھو کر استعمال کیا کرتی تھیں،دن بھر روزہ رکھتیں اور راتوں کو دیر دیرتک جاگ کر عبادت کیاکرتی تھیں،یہ آپؓ کاروز کا معمول تھا،تہجد،قیام اللیل اورچاشت کی نمازخاص اہتمام سے پڑھتی تھیں۔اس درجہ تقویٰ وعبادت کے باوجود رقت قلب کا یہ عالم تھا کہ فکر آخرت میں ہر وقت روتی رہتیں۔
ان کی ایک خوبی ان کی بے بہا سخاوت بھی تھی، اپنے پاس کبھی مال کو جمع نہیں ہونے دیا جیسے ہی کہیں سے کچھ آتا تھا فوراً ہی تقسیم کردیا جاتا۔تقریباًسڑسٹھ(67)غلام آزاد کیے،ایک مرتبہ ایک ہی مجلس میں ستر ہزار کی رقم صدقہ کردی،ایک بار حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک لاکھ درہم بھیجے،سب کے سب اسی وقت خیرات کردیے،ایک بار ان کے بھانجے حضرت عروہ بن زبیر ؒ نے ایک لاکھ درہم بھیجے،خود بھی روزے سے تھیں،لیکن سب کے سب خیرات کردیے اور افطار کے لیے بھی کچھ بچا کر نہ رکھا۔ایک بار بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ نے کہا کہ خالہ جان!اتنا زیادہ صدقہ نہ کیا کریں،کچھ اپنے لیے بھی بچا کر رکھ لیا کریں،تو ان سے تین دن تک بات نہ کی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی ازدواجی زندگی اس خوبصورتی کے ساتھ گزاری کہ ایک مسلمان عورت کے لیے ان کی زندگی کے تمام پہلو، شادی، رخصتی، شوہر کی خدمت و اطاعت، سوکن سے تعلقات، بیوگی، خانہ داری کے تمام پہلواس قدر روشن ہیں کہ ان کی تقلید کرکے ایک مسلمان عورت دونوں جہاں میں اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے سرخرو ہوسکتی ہے۔
نبی کریم ﷺ کے اس دنیا سے پردہ فرماجانے کے بعد تقریباً اڑتالیس(48) سال تک یہ امت کی محسنہ، عالم اسلام کے شب وروز کو انوارالہٰی اور اسوہئ حسنہ سے مسلسل اور متواتر منور کرتے رہنے کے بعد چند روز علیل رہ کرسترہ(17) رمضان المبارک 58ھ؁ میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی، یہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ایام خلافت تھے، نماز جنازہ حاکم مدینہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ آپ کے بھتیجوں اور بھانجوں (، عبداللہ بن زبیرؓ،قاسم بن محمدؒ، عبداللہ بن عبدالرحمانؒ، عبداللہ بن ابی عتیق ؒ اور عروہ بن زبیرؒ)نے لحد میں اُتارا اور اس وقت جنت البقیع (مدینہ منورہ) میں محواستراحت ہیں۔ رضی اللہ عنہا وارضاہ!
٭٭٭٭٭